وہاں پاکستان میں ایک عورت فہمیدہ ریاض ہیں۔ وہ ایک اردو شاعرہ ہیں اور بڑی بے باکی کے ساتھ بولتی ہیں۔
پاکستان میں تو پہلے ایک عورت ہونا گناہ ہے۔
دوسری وہ بے باک شاعرہ ہیں‘ اور معاشرہ کے خود ساختہ لیڈران پر اپنی شاعری کے ذریعہ تنقید کرتی ہیں۔ یہ ویسا ہی جیسے ”ایک تو کریلا‘ اور وہ بھی نیم چڑھا“۔
جب سے انہوں نے ہندوستان میں پناہ لی۔وہ اچھے قدیم ایام تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بطور مہمان طویل مدت تک رہیں۔پھر وہ ہندوستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن لوٹ گئیں۔
اب ایساہوا کہ ہندوستان کی صورتحال بھی بدل گئی ہے۔ وہ پریشان ہیں۔ اور انہوں نے ایک نظم ’نیا بھارت‘ کے عنوان پرلکھی ہے۔ایسا ہوا کہ رات دیر گئے میں نے اس نظم کامطالعہ کیا۔
اور یہی میری غلطی تھی۔ نظم کاکچھ حصہ مندرجہ ذیل پیش کیاجارہا ہے
تم بلکل ہم جیسے نکلے
تم بلکل ہم جیسے نکلے
ابتک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا‘ وہ گنوار پن
جسمیں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دیوار تمہاری ط
ارے بدھائی‘ بہت بدھائی
قائم ہندو راج کرو گے؟
سارے الٹے کاج کرو گے
اپناچمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سونچا
پوری ہے ویسے تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کروگے فتوی جاری
ایک جاب سے کرتے جاؤ
بارم بار یہی دہراؤ
کتنا ویر مہان تھا بھارت
کیسا عالیشان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو پہلے سے وہاں پر
اب جس نرگ میں جاؤں وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا
اور پھر اچانک کسی وارننگ کے بغیرمنظر بدل جاتا ہے۔ ایک ہجوم لوہے کی سلاخیں اپنے ہاتھ میں لے کر آتا ہے اور ایک نہاتے نوجوان کی پیٹائی کرتا ہے۔ میں نے بھائیوں سے استفسار کیا۔
کیوں اس کواس بے رحمی کے ساتھ ماررہے ہیں؟۔یہ بزدلی ہے۔ تم قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ اسکا جرم کیاہے؟۔ انہوں نے کہاکہ تمام ناسمجھ ہو۔ تمہیں معلوم نہیں یہ کون ہے؟۔
یہ پہلو خان ہے۔ پھر منظر بدلتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ایک شخص کی پیٹائی ہوتی رہتی ہے‘ اس غریب کے جسم سے خون رستا رہتا ہے۔میں نے رحم کی بھیک مانگی معزز لوگو‘ اسکا جرم کیاہے؟۔
انہوں نے کہاکہ نادان تم اسکو نہیں جانتی‘یہ اخلاق ہے۔
میں نے نیند میں چلانا شروع کیا’فہمیدہ تم سچائی بولو‘ فہمیدہ تم سچائی بولو“۔ جیساہی میں نے بولا‘ پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا۔ میں پوچھ رہی تھی میرا جرم کیاہے؟۔
انہوں نے کہاکہ تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے نعرہ لگایا’فہمیدہ سچائی بولو“۔
یہ ہے غداری‘ اب عدالت میں اجاؤ۔ عدالت میں جب گئے تو وہاں نہ تو کوئی اشلوک تھا نہ آیت‘ گاندھی جی کا مجسمہ بھی غائب تھا اور اشوک چکرا بھی دیکھائی دنہیں دے رہاتھا‘ فلم کی منظر کشی آنکھوں میں تھے
آنکھوں میں تھے
کچھ نہ کہو‘ کچھ بھی نہ کہو
کیاکہا ہے‘ کیاسنا ہے
تم کو پتا ہے‘ ہم کوپتا ہے
اب خواب تو خواب ہی ہوتا ہے۔ معزز جج نے اپنے حاکمانہ انداز میں استفسار کیا’کیاتم اپنا جرم قبول کرتے ہو؟“۔
میں وہ ہوں جس نے اپنی ساری زندگی میں ظلم او رجبری کی مخالفت کی ہے‘ جس نے ہمیشہ انصاف اور سچائی کی لڑائی میں ظالموں کی حمایت کرنے پر سر جھکاتے ہوئے کہاکہ ”جی ہاں میں تسلیم کرتی ہوں میں نے نعرہ لگایاہے”فہمیدہ تم سچ بولو“ میں نے کہاکہ جی ہاں میں تسلیم کرتاہوں یہ میرا جرم تھا۔
میں تسلیم کرتی ہو یہ ایک گناہ تھا‘ اور پھر میں روپڑی۔ کیاکوئی بتاسکے گا کہ میں کیوں روپڑا؟۔
جسٹس جسپال سنگھ ایک سابق جج دہلی ہائی کورٹ کے۔ مذکورہ مضمون کسی وقت میں نے دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر میں پڑھاتھا