سال نو کا انٹرویو : وزیراعظم مودی سے جو سوال پوچھے ہی نہ گئے!

   

امجد خان
نئے سال 2019ء کے پہلے روز جو ایک اہم سال ہے جب ساری قوم انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے نئے وزیراعظم کو منتخب کرے گی، نریندر مودی نے ’اے این آئی‘ کی سمیتا پرکاش کو انٹرویو دیا۔ 95 منٹ طویل انٹرویو میں مودی نے مختلف سوالات کا سامنا کیا جیسے نوٹ بندی، رفال تنازعہ، کسان قرض معافیاں، ملک بھر میں پھیلنے والا وبائی ہجومی تشدد۔ اس کے علاوہ انھوں نے کانگریس پر چوٹیں کیں۔ لیکن اتنے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے چند کلیدی حقائق کو نظرانداز کردیا، اس طرح انٹرویو کو طویل تقریر میں بدل دیا، جس میں وہ سب سے زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اس روشنی میں ’دی کوئنٹ‘ نے پی ایم مودی سے وہ سوالات پوچھے ہیں جن کے جواب انھوں نے تشفی بخش نہیں دیئے۔
نوٹ بندی کی بحث
جب مودی سے 2016ء میں 500 روپئے اور 1,000 روپئے کے کرنسی نوٹوں کو چلن سے ہٹالینے کے یکایک فیصلہ کے تعلق سے پوچھا گیا تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ یہ اقدام کوئی ’’جھٹکہ‘‘ نہیں تھا بلکہ حکومت نے ایک سال قبل عوام کو متنبہ کردیا تھا کہ اگر آپ کے پاس ایسی دولت (کالا دھن) ہو تو آپ اسے جمع کراسکتے ہیں، جرمانہ ادا کردیں اور آپ کا معاملہ درست ہوجائے گا۔ ’’نوٹ بندی سے قبل متوازی معیشت چل رہی تھی، جس نے ملک کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ کرنسی جو تھیلوں میں رکھی جاتی تھی وہ بینکنگ سسٹم میں واپس آگئی۔‘‘
…… پی ایم مودی
٭ مودی نے جس کا انکشاف نہیں کیا (اور یہ حقائق سے عوام واقف ہیں) کہ جب نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تب توقع رہی کہ زیرگشت رقم کا بڑا تناسب جسے ’کالا دھن‘ مانا جارہا تھا، واپس نہیں ہوگا جب آر بی آئی پابندی والے نوٹوں کی گنتی ختم کرلے گا۔ لیکن اگست 2018ء میں خود آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق لگ بھگ تمام پابندی والے نوٹ بینکنگ سسٹم میں واپس ہوگئے۔ مذکورہ بالا رپورٹ نے بتایا کہ 15.31 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے کرنسی نوٹ واپس ہوگئے، جو روزِ واحد میں چلن سے غائب کئے گئے جملہ کرنسی نوٹوں کا 99.3 فیصد ہوتا ہے۔ سادہ زبان میں کہیں تو کالادھن کا ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے نشانے سے جو اقدام کیا گیا، وہ عمومی طور پر عوام الناس کے خلاف عمومی انتقامانہ کارروائی بن گئی۔
آر بی آئی بمقابلہ مرکز ٹکراؤ
جب ’اے این آئی‘ نے مودی سے سابق آر بی آئی گورنر ارجیت پٹیل کے استعفے سے متعلق پوچھا تو پی ایم نے جواب دیا کہ ’’وہ (ارجیت پٹیل) نے شخصی وجوہات کی بناء (مستعفی ہونے کی) درخواست کی تھی‘‘۔’’میں پہلی مرتبہ انکشاف کررہا ہوں کہ وہ اپنے استعفے سے چھ سات ماہ قبل سے ہی اس تعلق سے مجھے کہہ رہے تھے۔ انھوں نے بات تحریر میں بھی کہی۔ انھوں نے مجھے راست طور پر لکھا۔‘‘
…… پی ایم مودی
٭ لیکن مودی نے وزارت فینانس اور سنٹرل بینک کے درمیان پیش آئے ٹکراؤ کے تعلق سے لب کشائی نہیں کی، چاہے مسئلہ اُن ذخائر سے متعلق ہو جو آر بی آئی کو اپنے پاس رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا پھر قرض دینے کے قواعد میں نرمی لانے کا مطالبہ ہو۔ درحقیقت، جب تصادم جاری تھا، ڈپٹی گورنر آف آر بی آئی ویرال اچاریہ نے دھماکو تقریر میں مرکز پر شدید تنقید کی تھی، جہاں انھوں نے آر بی آئی جیسے مرکزی ادارہ جات کو آزاد رکھنے کی اہمیت کے تعلق سے بات کی اور کہا کہ اس کو ماند کرنے کا کوئی بھی اقدام ’’تباہ کن نتائج و عواقب‘‘ کا سبب بنے گا۔ مسٹر مودی نے یہ بھی جواب نہیں دیا کہ کیوں اُن کی حکومت نے آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 7 کو لاگو کرنے کا فیصلہ کیا، ایسی نظیر جو ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ کیا ضرورت پیش آئی؟
کسانوں کو قرض معافیاں
جب زرعی قرضوں کے تعلق سے سوال کیا گیا، مودی نے کہا کہ زرعی قرض معافیاں حل نہیں ہیں، اور کسانوں کی اکثریت کو ایسی معافیوں سے فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان میں سے معمولی تناسب ہی بینکوں سے قرض لیتا ہے، اکثریت تو ساہوکاروں سے قرض لیتے ہیں۔ انھوں نے قرض معافیوں کو ’’لالی پاپ‘‘ تک کہہ دیا۔
٭ لیکن اعداد و شمار اس کے برعکس حقائق پیش کرتے ہیں۔ اگست 2018ء میں ہی نیشنل بینک فار اگریکلچر اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (نبارڈ) نے ایک جائزے میں پایا کہ تمام زرعی گھرانوں میں لگ بھگ نصف قرض سے دوچار ہے۔ سروے سے معلوم ہوا کہ کاشتکار گھرانوں کا 52.5 فیصد حصہ قرض باقی ہے، اور ان میں سے صرف 11.5 فیصد نے ساہوکاروں سے قرض لیا ہے۔ اس قرض کی بڑی وجہ زراعت سے متعلق مصارف کی بڑھتی لاگت ہے، اور بینکوں سے ایک چوتھائی قرضے اس کی پابجائی کیلئے لئے جاتے ہیں۔
سرجیکل اسٹرائیک
انٹرویو میں مودی نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک میں بڑا خطرہ رہا، اور انھوں نے مسلح افواج کو واضح احکام دیئے کہ غروب آفتاب سے قبل واپس ہوجائیں اور اسے طوالت نہ دیں۔ لیکن سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت پر کبھی سوال نہ رہا۔ طویل مدت تک تنازعہ اس بات پر رہا جس طرح حکومت نے اسے سیاسی مقصد کیلئے استعمال کیا، اور بتدریج قوم پرست بمقابلہ قوم دشمن کی باتوں کو ہوا دی جانے لگی۔درحقیقت، لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا جنھوں نے اُس وقت سرجیکل اسٹرائیکس کی قیادت کی تھی، انھوں نے باقاعدہ یہ تک کہہ دیا کہ ان حملوں کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، وہ مختصر مدتی رہے، اور منتخب ویڈیوز و تصاویر کے افشاء کے ذریعے پوری طرح سیاسی رنگ دیئے گئے۔ کیا ان سب کی واقعی ضرورت تھی؟
لنچنگ کیخلاف حکومتی کارروائی
ہجومی تشدد پر فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے مودی نے اس کے بڑھتے وقوع پر اپنی برہمی کا اظہار کیا، لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اس طرح کے واقعات صرف 2014ء سے شروع نہیں ہوئے ہیں۔
٭ جو کچھ انھوں نے محتاط انداز میں بالائے طاق رکھ دیا وہ بھی بعض کلیدی حقائق ہیں۔ شروعات کرتے ہیں کہ وہ خود اپنی کابینہ کے وزیر جینت سنہا کے تعلق سے کیا کہتے ہیں، جنھوں نے جھارکھنڈ کے ہزاری باغ میں لنچنگ کیسوں کے آٹھ مجرمین کی گلپوشی کرنے کی رسواکن حرکت کی؟ وہ نتن گڈکری کے تعلق سے کیا کہتے ہیں جنھوں نے بڑی ڈھٹائی سے جینت سنہا کی مجرمین کو گلپوشی کے اقدام کو آزادیٔ اظہار خیال سے جوڑ دیا؟ وہ اپنی کابینہ کے ایک اور وزیر مہیش شرما کے بارے میں کیا کہتے ہیں جنھوں نے دادری لنچنگ کے ملزم کی نعش کو فی الواقعی ترنگے میں لپیٹا؟
رفال تنازعہ
انٹرویو کے دوران مودی نے رفال کے تعلق سے اور کس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے نے اُن کی حکومت کو اس معاملے میں کلین چٹ دیا ہے، قابل لحاظ وقت دیا۔
٭ لیکن انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ 126 طیاروں کیلئے پہلے کی معاملت کو منسوخ کرنے اور اس کی بجائے کافی زیادہ قیمت پر صرف 36 طیاروں کا معاہدہ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ علاوہ ازیں، انھوں نے کبھی وجہ بیان نہیں کی کہ آف سٹ کنٹراکٹس انیل امبانی کو کیوں دیئے گئے، جنھیں نہ صرف ڈیفنس میں کچھ تجربہ نہیں بلکہ آفسٹ کنٹراکٹ حاصل کرنے والی اُن کی کمپنی فی الواقعی دیوالیہ ہے۔ ایچ اے ایل کو کیوں منظر سے ہٹا دیا گیا، جبکہ پبلک سیکٹر کی کمپنی کو اس شعبے میں وسیع تر تجربہ ہے؟
جہاں تک سپریم کورٹ فیصلہ کی بات ہے، انھوں (مودی) نے عدالت کے فیصلہ میں ’حقیقت سے متعلق غلطی‘ کی بابت کبھی بات نہیں کی جبکہ عدالت نے کہا کہ سی اے جی نے طیارہ کی قیمت کی تفصیلات پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پیش کی ہیں، حالانکہ پی اے سی چیئرمین ملکارجن کھرگے نے باقاعدہ اس کی تردید کردی۔ سچائی کیا ہے؟
سبری ملا تنازعہ پر بی جے پی موقف
انٹرویو کے دوران مودی نے کہا کہ تین طلاق بل متعدد مسلم خواتین کو ذہن میں رکھ کر لایا گیا جنھیں اُن کے شوہروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن سبری ملا کیلئے سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں حیض کی عمر والی خواتین کو بھی مندر میں داخلے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے مودی نے اِندو ملہوترہ کے اقلیتی فیصلہ کو استعمال کیا اور اعادہ کیا کہ سبری ملا کیس جنس کی مساوات کا نہیں بلکہ روایت کا ہے۔
٭ کیا واقعی مسٹر مودی؟ کیرالا میں سینکڑوں خواتین جنھوں اتفاق سے پی ایم کے انٹرویو کے دوران انسانی زنجیر بنارہی تھیں وہ یقینا عدم اتفاق کریں گی۔
معاشی مجرمین کو واپس لانا
جب معاشی مجرمین کو وطن واپس لانے میں حکومت کی سنجیدگی سے متعلق پوچھا گیا تو مودی نے کہا کہ کرپشن کو اُن کی حکومت چونکہ ہرگز برداشت نہیں کرتی ہے، اس لئے انھیں ماضی کے برخلاف فرار ہونا پڑا۔ لیکن یہاں بھی وہ کئی معاملوں میں فرق کو گول کرگئے۔
٭ وجئے مالیا کے کیس کی مثال لیتے ہیں؛ پی ایم نے پریشانیوں میں گھرے شراب کے تاجر اور فینانس منسٹر ارون جیٹلی کے درمیان مبینہ میٹنگ کے بارے میں کیوں لب کشائی نہیں کی؟ کیوں سی بی آئی کی ایل او سی نوٹس کو لمحہ آخر میں تبدیل کرتے ہوئے اسے ’محروس کرو‘ سے ’صرف مطلع کرو‘ بنا دیا گیا، جس نے مالیا کو فرار ہونے کا موقع دیا؟
مودی حکومت میں جمہوری اداروں کا ’کمزور‘ ہونا
موجودہ حکومت کے تحت جمہوری ادارہ جات کمزور پڑنے کے سوال پر مودی نے کانگریس پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ دراصل اُن (کانگریس) کے دور میں ادارے کمزور ہوئے، نا کہ موجودہ حکومت میں۔
٭ لیکن سچائی سے کچھ بھی دور نہیں ہوسکتا۔ سب سے پہلے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سی بی آئی کا سربراہ اور اُن کے نائب دونوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹادیا گیا، اور وہ بھی نصف شب کو۔ کیا پی ایم وضاحت کرسکتے ہیں کہ اس طرح کا فیصلہ کس طرح کیا گیا؟ کس سے مشاورت کی گئی؟ ایک اور مثال میں کیا مودی الکٹورل بانڈز کے مسئلہ پر اپنا دامن پاک بتاسکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے درحقیقت فینانس منسٹری سے تحریری رابطے میں واضح طور پر دلیل پیش کردی تھی کہ الکٹورل بانڈز سے مزید کالادھن وجود میں آنے کا اندیشہ ہے۔ پھر بھی کیوں حکومت نے اس معاملے میں پیشرفت کی؟ اول تو الکٹورل بانڈز متعارف کرانے کی وجہ کیا تھی؟
سیاسی تشدد اور فرضی انکاؤنٹرز
اس تعلق سے پوچھنے پر مودی نے کیرالا اور مغربی بنگال میں سلسلہ وار ہلاکتوں پر تفصیلی بات کی۔ ویسے انھوں نے صرف آر ایس ایس ورکرز کے قتل کا ذکر کیا حالانکہ ہلاکتیں تو دونوں طرف پیش آئیں۔
٭ لیکن سیاسی تشدد کے مسئلے میں سرکاری سرپرستی میں مشکوک نوعیت کے انکاؤنٹرز کی بڑھتی تعداد بھی مضمر ہے۔ اس ضمن میں یوگی ادتیہ ناتھ اور اُن کی ٹریگر دبانے کی عادی پولیس کی کئی نیوز رپورٹس کا ذکر آتا ہے۔ درحقیقت ’دی انڈین اکسپریس‘ نے جامع رپورٹ تیار کی کہ یو پی میں کس طرح ایف آئی آر درج کرنے میں دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے، جو انکاؤنٹرز کا موجب بنتے ہیں۔ کیا پی ایم اس کی بھی غیرمشروط طور پر مذمت کریں گے؟