سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی

   

ہندوستانی معیشت گذشتہ چند برسوں سے جھکولے کھا رہی تھی اب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے بعد معاشی صورتحال مزید ابتر ہوگئی ۔ ریاستی حکومتوں کے لیے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے اور یہی ریاستیں لاکھوں ورکرس کو سہارا دینے کی بات بھی کررہی ہیں خاص کر تلنگانہ حکومت نے ریاست میں دوسرے علاقوں سے آنے والے ورکرس کو بھروسہ دیا کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے گا اور انہیں مالی امداد بھی دی جائے گی وہ لوگ تلنگانہ چھوڑ کر اپنے آبائی وطن واپس نہ جائیں ۔ تلنگانہ حکومت نے ایک طرف مزدوروں کی مدد کرنے اور کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے دوران پریشان عوام کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تو دوسری طرف اپنے ہی سرکاری ملازمین ، آفیسرس اور اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں میں بھاری کٹوتی کا فیصلہ بھی کیا ۔ سیاستدانوں ، ارکان اسمبلی ، وزراء اور عوامی نمائندوں کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ سرکاری ملازمین کے لیے اچانک معاشی طور پر دھکہ دینے والی بڑی خبر ہے ۔ چیف منسٹر ، ریاستی کابینی وزراء ، ایم ایل سیز ، ارکان اسمبلی ، ریاستی کارپوریشن ، چیرپرسن ، مقامی بلدیات کے نمائندوں کی تنخواہوں میں 75 فیصد کٹوتی کی جائے گی ۔ ریاست تلنگانہ کی مالی حالت کو دیکھ کر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تنخواہوں میں کٹوتی کو ایک جمہوری اقدام قرار دیا ہے ۔ حکومت نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ تنخواہ میں کٹوتی نہیں ہے بلکہ تنخواہوں کی مکمل ادائیگی کو موخر کردیا جانے کا فیصلہ ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن نافذ ہے اس کی وجہ سے ریاستی خزانہ پر مالیاتی بوجھ پڑا ہے ۔ اس لیے تمام سرکاری تنخواہ یاب افراد کی تنخواہوں کی مکمل ادائیگی کو موخر کیا جارہا ہے ۔ یہ عمل تمام زمرہ کے ملازمین کے لیے ہوگا ۔ حکومت تلنگانہ کا یہ اقدام سرکاری ملازمین کے لیے پریشان کن ہے ۔ ایسے وقت میں جب کورونا وائرس سے سارا ملک پریشان ہے ، تلنگانہ حکومت نے راحت اقدامات کرنے کے بجائے اپنے ہی ملازمین کو تنخواہوں سے محروم کررہی ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کئے ہیں ۔ سرکاری مشنریز کو اس کام کے لیے مخصوص کردیا ہے ۔ ریاست میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھنے کے دوران حکومت کے بعض اقدامات نے غیر ضروری الجھن پیدا کردی ہے ۔ تنخواہوں میں کٹوتی کی کئی گوشوں نے مذمت بھی کی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر کورونا وائرس اور ریاست کی مالیاتی صورتحال کو ایک دوسرے سے گڈمڈ کر کے ریاست کی مالیاتی خرابیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا اور ایسا فیصلہ کرنے کا یہ کوئی وقت ہی نہیں تھا ۔ اس طرح کے فیصلے ان حالات میں نہیں کئے جانے چاہئے ۔ آج ریاست کی اولین ترجیح عوام خاص کر سرکاری ملازمین سے بھر پور تعاون کرنے کے لیے ہونی چاہئے تھی لیکن حکومت نے ملازمین اور وظیفہ یابوں دونوں پر وار کردیا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریاست کو حاصل ہونے والا مالیہ رک گیا ہے ۔ خسارہ کی وجہ سے سرکاری خزانہ پر بوجھ بھی پڑا ہے ۔ لیکن حکومت اس سلسلہ میں کورونا بحران ختم ہونے کے بعد بھی فیصلہ کرسکتی تھی ۔ سرکاری مصارف میں کمی لاتے ہوئے متبادلہ طریقوں سے حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کا فیصلہ کرنا تھا لیکن حکومت نے راست سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو ہی نشانہ بنایا ۔ اس طرح کے فیصلے سے ملازمین میں ناراضگی ، بے دلی اور مایوسی پیدا ہوگی ۔ خاص کر ان درجہ چہارم ملازمین جو کم تنخواہوں کی شکایت کررہے ہیں ان کو موجودہ مہنگائی کے اعتبار سے تنخواہیں دینے کے بجائے ان کی تنخواہوں میں کمی کے ذریعہ پریشان کیا گیا ہے تو آنے والے دنوں میں خود حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اگر ایک دن کی بھی تنخواہ منہا کردی جاتی ہے تو اس کا ایک گھر کے ماہانہ اخراجات پر راست اثر پڑتا ہے ۔ ہر ماہ ریاستی حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور اجرت پر 1900 کروڑ روپئے خرچ کرتی ہے اور وظیفہ یابوں کو 860 کروڑ روپئے ادا کرتی ہے ۔ اس میں اب آدھی رقم ہی دی جاسکے گی تو ایک ماہ میں حکومت 1370 کروڑ روپئے کی بچت کرے گی لیکن اس طرح بچت سے حکومت کے لیے کچھ راحت ضرور ملے گی لیکن کئی ملازمین کے گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے ۔۔