سر سید تحریک کو ’ڈیجیٹل شکل‘ دینے کی ضرورت!

   

ظفر آغا
لیجیے سر سید احمد خان کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوئے 100 سال ہو گئے۔ جی ہاں، کہتے ہیں کہ سر سید احمد خان نے جس اینگلو محمڈن کالج قائم کیا تھا، وہ اب بشکل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 100 برس کی ہوگی۔ دراصل 10 ستمبر 1920 میں ایم او کالج کا بل انگلستان میں پاس ہوا۔ اسی سال دسمبر میں کالج قائم ہو گیا۔ اور اس طرح ہندوستانی مسلمان میں 100 برس قبل جدید تعلیم حاصل کرنے کی داغ بیل پڑی۔ اور آخر سر سید کا یہ خواب ایک شاندار یونیورسٹی بن کر قائم و دائم ہے۔ سر سید نے اس یونیورسٹی کے قیام کے لیے جو صعوبتیں اٹھائیں وہ اب ہم اور آپ اکثر قصے کہانی کے طور پر سنتے ہیں۔ مثلاً اس یونیورسٹی کے لیے سر سید مانند فقیر دامن پھیلا کر چندہ اکٹھا کرتے تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں، سر سید کو اس دور میں خود مسلمانوں کے ایک طبقے سے جس قدر مخالفت کا سامنا اٹھانا پڑا اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ علماء￿ کرام نے سر سید ک و کافر قرار دیا اور ان کی گردن زدنی تک کے فتوے جاری ہوئے۔ لیکن یہ مرد مومن جو قرآن کو سہی معنوں میں سمجھتا تھا، اس نے اقراء￿ کے حکم کو سمجھ کر اپنی جان کی بازی لگا دی تاکہ مسلمان جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں سے نکل کر جدید تعلیمی مشعل کے ساتھ ایک نئی دنیا میں قدم رکھ سکے۔

آخر وہ کون لوگ تھے جو سر سید کے مخالف تھے۔ یہ وہی لوگ تھے انگریزوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی ترقی سے بھی نفرت کرتے تھے۔ اس گروہ کا خیال تھا کہ اگر انگریزی تعلیم حاصل کی گئی تو مسلمان اسلام اور مسلم تہذیب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ ان کی یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جس بادشاہی نظام اور زمیندارانہ معاشرے کو وہ اسلامی معاشرہ سمجھ رہے ہیں اس کا اصل اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس وقت صرف انگریزی تعلیم ہی نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی کفر مانتے تھے۔ چنانچہ تب ہی تو ہر سائنسی ایجاد کے خلاف مسلم معاشرے میں ایک فتویٰ آ جاتا تھا۔ تصویر سے لے کر ٹی وی تک ہر شے کو کفر قرار دیا گیا۔ دراصل یہ وہ گروہ تھا جو دور جدید اور اس کی ترقی سے خائف تھا۔ اور کیونکہ انگریزوں کے ہاتھوں اس کی شکست ہوئی تھی اور اس کا اقتدار چھینا تھا اس لیے وہ تباہ حال زمیندار کی طرح نئے انگریز حاکم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔

لیکن سر سید احمد خان اس گروہ سے مختلف تھے۔ انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہماری غلامی کا سبب یہ ہے کہ انگریز نے ایک نئی دنیا بنا لی ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے ان کو اس قدر طاقت دے دی ہے کہ اس کے آگے مسلم معاشرہ اب ٹک نہیں سکتا ہے۔ ان کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ انگریز کی شکست سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس کی ترقی کو اپناؤ اور خود کو اس قدر مضبوط بناؤ کہ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکو، تب ہی تم انگریز کا مقابلہ کر سکتے ہو۔ سر سید کو یہ بھی سمجھ میں آ گیا تھا کہ وہ طاقت جو انگریز کے پاس ہے ان کو حاصل کرنے کا راستہ جدید تعلیم ہے جو انگریزی زبان کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ہندوستانی مسلمان کو اس دور جدید میں داخل ہونے کے لیے ایک جدید تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے۔ اسی مقصد کے تحت ایم او کالج 10 ستمبر 1920 میں قائم ہوا جو جلد ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا۔ یعنی سر سید کی جو فکر اور جنون تھا وہ نہ صرف سب سے جدا تھا بلکہ ایک انقلابی نظریہ تھا جس کے ذریعہ ہندوستانی مسلم معاشرہ کو پھر سے ترقی یافتہ بنایا جا سکتا تھا۔

آج اس مودی کے دور میں مسلم بچے بچے کی زبان پر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب یہ ہے کہ ہم تعلیم میں پیچھے رہ گئے۔ ذرا سوچئیے کہ وہ شخص کس قدر عظیم المرتبت ہوگا کہ جس کو یہ راز سو برس قبل سمجھ میں آ گیا۔ صرف وہ سمجھے ہی نہیں بلکہ اس کا مداوا کرنے کو سر سید نے ایک ادارہ بھی قائم کیا جس میں نسل در نسل پڑھ کر مسلمانوں کی کثیر تعداد اپنی زندگی بدلتی چلی آ رہی ہے۔ سر سید کا یہ احسان کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔

لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی 100ویں سالگرہ پر ایک اہم سوال ہے جو اس وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور جو ایک بار پھر سے پوری شد و مد سے پوچھا جانا چاہیے۔ کیونکہ آج ہندوستانی مسلمان کے سیاسی و سماجی حالات کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے 100 برس قبل جب سر سید نے ایم او کالج قائم کیا تھا تب تھے۔ اس وقت مغلیہ سلطنت کا زوال ہو چکا تھا اور مسلمان غلام تھا۔ آج مودی حکومت میں مسلم سماج کے کم و بیش تمام اختیارات صلب ہو چکے ہیں اور وہ سنگھ کے ہندو راشٹر میں دوسرے درجے کا شہری بن چکا ہے۔ اس وقت وہ جدید تعلیم سے بے بہرہ تھا اور جہالت کے غار میں بھٹک رہا تھا، آج بھی یہ عالم ہے کہ دلتوں میں گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں سے مسلم گریجویٹ کی تعداد کم ہے۔ ہمارا بڑا طبقہ سڑکوں پر ، پٹری پر سامان بیچ کر بمشکل تمام زندگی بسر کر رہا ہے۔ یعنی سر سید کے راہ دکھانے کے باوجود حالات کم و بیش وہی ہیں جو اس وقت تھے جب انھوں نے ایک جدید تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا۔

آخر کیوں! سیدھی سی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں فکری اور نظریاتی اعتبار سے وہی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی جو جدید دور کی ضرورت ہے۔ تب ہی تو آج بھی وہی فتوے دینے والا گروہ یا فتوے کے انداز میں سیاست کرنے والے افراد مسلم سماج پر حاوی ہیں۔ جب سے بابری مسجد کا تالا کھلا تب سے حال تک مسلم سیاست ہی نہیں مسلم فکر پر بھی ایسے افراد کا غلبہ رہا جو شاید سر سید کے وقت ہوتے تو اسی صف میں کھڑے ہوتے جس میں سر سید کے خلاف فتویٰ دینے والے افراد کھڑے تھے۔ یعنی سر سید کی قائم کردہ ایک یونیورسٹی کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے سر سید تحریک کی جو مسلم سماج کی فکر میں تبدیلی پیدا کر سکے۔ اس کے لیے ایک دوسری سر سید تحریک ہی کارگر ہوگی۔ یعنی مسلم سماج کو ایک دوسرے نشاط ثانیہ کی ضرورت ہے جو اس کی فکر اور جدید دور کے تقاضوں کے ہم آہنگ بنا سکے۔
اب یہ کام کیسے ہو! راقم کی حقیر رائے میں اس کے لیے دو باتیں درکار ہیں۔ اولاً مسلم سماج میں ایک ایسے منظم گروہ اور تنظیم کی ضرورت ہے جو فتوے اور مسلم جذبات بھڑکا کر سیاست کرنے والوں کے خلاف کھڑا ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ آسان کام نہیں۔ لیکن بی جے پی نے پرانی قیادت کو اس قدر عیاں کر دیا کہ مسلم سماج اس تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انداز پر پوری گھنی آبادی والے مسلم علاقوں میں نئی درسگاہیں کھلیں جو صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ قوم کو جدید دور کے ہم آہنگ بنا سکے۔

جدید دور میں ترقی کے معنی بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں نہیں جو سر سید کے وقت درکار تھیں۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔ آج تعلیم بھی گھر بیٹھے کمپیوٹر کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ یعنی اب ترقی کے لیے مسلمان کو ڈیجیٹل انقلاب سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں ہوا تو ہم اور پیچھے چلے جائیں گے۔ یعنی سر سید نے ایک یونیورسٹی قائم کی جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ ایک سر سید ڈیجیٹل یونیورسٹی قائم ہو جو ہندوستانی مسلمانوں کو اکیسویں صدی میں ترقی کے اہل بنا سکے۔