سعودی مالداروں کا بھی اب شادی میں اسراف سے گریز

   

جدہ ۔ 14 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب میں آج کل شادیوں میں مہمانوں کی فہرست سکڑتی جارہی ہے حالانکہ مابقی تمام خصوصیات جیسے دولہے کی سجی سجائی تلوار، دولہے کا بہترین لباس اور دوستوں کے ساتھ رقص وغیرہ تقریباً جوں کی توں موجود ہیں لیکن کسی زمانے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دعوت دینے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ میزبان کتنا مالدار ہے اور اس کا سماج میں کیا رتبہ ہے۔ زیادہ تر شادیوں کا خرچ دولہے والے ہی برداشت کرتے ہیں جن میں سب سے زیادہ خرچ شادی خانہ کی مد میں کیا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں باصل البام جیسے کئی مالدار اشخاص ہیں جنہوں نے اپنی شادی میں شرکت کیلئے صرف کچھ قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو ہی مدعو کیا ہے جو یقینی طور پر خاندانی روایتوں کے مغائر ہے تاہم اس میں بچت بہت زیادہ ہورہی ہے۔ انشورنس ایگزیکیٹیو 26 سالہ باصل البام کی شادی میں بہ مشکل دو درجن افراد نے شرکت کی کیونکہ دعوت بھی اتنے ہی لوگوں کو یا اس سے کچھ زیادہ لوگوں کو دی گئی تھی۔ سعودی معیار کے مطابق اس تعداد کو ’’اونٹ کے منہ میں زیرے‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ دریں اثناء باصل نے بتایا کہ ہم اپنے ہی مکان پر چھوٹی موٹی تقریب منعقد کرتے ہوئے ایک نئی روایت قائم کرنا چاہتے تھے جو صرف چنندہ دوستوں کی موجودگی سے مزید مزیدار ہوگئی تھی۔ دریں اثناء میریج پلانرس کا کہنا ہیکہ شادیوں کے اخراجات میں اب 25 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور اب پہلے جیسی شان و شوکت اور اسراف کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ بعض دولہے تو اب شادی میں اسراف کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں اور اپنے والدین سے واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اگر اسراف بند نہ کیا گیا تو وہ زندگی بھر کنوارہ رہنا پسند کریں گے یا پھر پڑوسی ملک بحرین فرار ہوجائیں گے۔