سلاطین عثمانیہ کے جانشین بننے رجب طیب اردغان کی کوشش

   

ششیر گپتا
صدر ترکی رجب طیب اردغان کی حکومت سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کو خراج عقیدت کے لئے میں ایک میوزیم قائم کرے گی۔ یہ وہی سلطان محمد فاتح ہیں جنہوں نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور ان کی یہ فتح سلطنت عثمانیہ کی توسیع کی سمت پہلا بڑا قدم تھی۔ ترکی میں پہلی مرتبہ ادرنے کے مقام پر کسی سلطان کے نام سے ایک میوزیم تعمیر کیا جائے گا۔ استنبول میں قائم فاتح سلطان محمد واقف یونیورسٹی کے پروفیسر ذکریہ کرسون نے سرکاری خبررساں ایجنسی انادولوف کو بتایا کہ آئندہ سال تک یہ میوزیم تیار ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ میوزیم ترکی کے صوبہ ادرنے میں آبنائے باسپورس سے متصل ہے۔ جو یوروپ اور ایشیا کے درمیان براعظمی سرحد بناتا ہے۔ ترک حکومت کے اس اقدام کو سلاطین عثمانیہ کی جانشین کی حیثیت سے ارغان کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے ایک تسلسل کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ ترکی کے 68 سالہ اس سیاسی رہنما نے 2018 کے دوران یہ اعلان کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ جمہوریہ ترکی سلطنت عثمانیہ کا ایک تسلسل ہے۔ جہاں تک رجب طیب اردغان کا سوال ہے ان کے والد ایک ساحلی گارڈ تھے اور اب ترک صدر ایک ہزار کمروں پر مشتمل رہائشی محل میں قیام پذیر ہیں جو انقرہ میں واقع ہے۔ رجب طیب اردغان کا یہ صدارتی محل وہائٹ ہاوز یا کریملن سے بھی بہت بڑا ہے۔ کچھ عرصہ قبل رجب طیب اردغان عالمی دنیا میں ایک ڈیموکریٹ یا جمہوریت پسند کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن آج وہ خود کو اسلام پسندوں کے نئے چیمپین کی حیثیت سے منظر عام پر لا رہے ہیں اور خود کو اس نئے کردار میں ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ رجب طیب اردغان کی یہی کوشش اور خواہش نے ترکی کو سعودی عرب کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔ ویسے بھی رجب طیب اردغان کی قیادت میں ترکی عالمی سطح پر اسلامی قیادت کا دعویٰ کرتا ہے۔ سعودی عرب بھی ان علاقوں میں شامل تھا جو کبھی سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط تھے۔ اُس دور میں یوروپ، شمالی افریقہ کا ایک بڑا حصہ اور دیگر مغربی ایشیائی ممالک ترکی کے زیر کنٹرول تھے۔ رجب طیب اردغان کی ان کوششوں کا جب ذکر کرتے ہیں تو پھر آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق ان کی کارروائی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ آخر انہوں نے اپنے اقتدار کے کئی برسوں بعد آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ دراصل انہوں نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عالم اسلام کو ایک غیر مبہم پیام دیا ہے۔ ان کا یہ پیام دراصل قدیم یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کو آزاد کرنے کی سمت ایک قدم ہے۔ مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کے لئے تیسرا اہم و مقدس مقام ہے۔ اس سلسلہ میں اردغان نے اپنے کئی خطابات کے دوران واضح کیا تھا کہ ان کا مقصد مسجد اقصیٰ کو اسرائیلی شکنجہ سے آزاد کرانا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جاریہ سال جولائی میں آیا صوفیا میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ اس موقع پر اردغان نے خطاب کرتے ہوئے صیہونی شکنجہ سے مسجد اقصیٰ کو آزاد کرنے کے عزم کا اظہار کیا جس پر اسرائیل اور اس کے حلیفوں نے برہمی ظاہر کی۔

رجب طیب اردغان کے عزائم سے توقع ہے کہ عالم اسلام میں صورتحال مزید پچیدہ ہو جائے گی۔ پہلے سے ہی عالم اسلام تخریبی رجحانات بشمول نسلی تنازعات کا سامنا کررہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مملکت قطر اور متحدہ عرب امارات و سعودی عرب کے درمیان جاری تنازعہ میں رجب طیب اردغان نے قطر کی تائید و حمایت کی ہے اور وہ ان دو اہم عرب ملکوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غیر عرب مسلم ملکوں کو متحرک کرنے کے لئے سخت محنت بھی کی ہے۔ غیر عرب سنی اکثریتی ممالک جیسے پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے شیعہ اکثریتی ایران اور عرب ملک قطر کے ساتھ سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات۔ مصر جیسے ممالک کے مثلث کا جواب دینے ایک اتحاد بنایا ہے۔ یہ تقسیم اس وقت مزید سنگینی اختیار کی جاتی ہے جب شیعہ اکثریتی عراق، شام لبنان اور بحرین و یمن میں شیعہ فورسیس کی تائید و حمایت کرے۔

گزشتہ سال ملائیشیا کی جانب سے ایک اجلاس کی میزبانی کی گئی اور اس نئے گروپس یا اتحاد کے پہلے اجلاس میں 20 ممالک نے شرکت کی اور اسے ترکی کی زیر قیادت، سعودی زیر قیادت او آئی سی یا تنظیم اسلامی کانفرنس کا جواب قرار دیا۔ پاکستان جس نے اردغان کی کوششوں کی حمایت کی تھی آخری لمحات میں اس سربراہ اجلاس سے خود کو دور کرلیا۔ اس سلسلہ میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان پر ریاض کا دباؤ بڑھ گیا تھا لیکن پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سفارتی طوفان گزشتہ ماہ اس وقت برپا کیا جب انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ اگر تنظیم اسلامی کانفرنس مسئلہ کشمیر پر مباحث یا غور و فکر کرنے کے حق میں نہیں ہے تو پھر پاکستان اردغان کی زیر قیادت اسلامک فرنٹ سے رجوع ہوسکتا ہے تاکہ وزارتی سطح پر مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ بعد میں وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہتے ہوئے ایک طرح سے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کی تائید و حمایت کی کہ ہر ملک کو اپنے قومی مفاد میں کام کرنے کا حق حاصل ہے وہ دراصل سعودی عرب کے بارے میں بات کررہے تھے تاہم اپنے ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا اس اصول کا اطلاق پاکستان پر بھی ہوتا ہے۔ پچھلے ماہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدہ کروایا اور پھر بحرین کے ساتھ اسرائیل کا معاہدہ کروایا گیا۔ ان معاہدات سے رجب طیب اردغان کو خلیجی ممالک پر تنقید کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ اردغان خود کو فلسطینیوں اور ان کے حقوق کا دفاع کرنے والا تصور کرتے ہیں۔ اسرائیل سے معاہدہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رجب طیب اردغان نے جوابی کارروائی کے طور پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کرنے کی دھمکی دی حالانکہ ترکی وہ پہلا مسلم اکثریتی ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ 1949 میں مکمل سفارتی تعلقات قائم کئے تھے اس حقیقت کے باوجود اردغان یو اے ای۔ اسرائیل معاہدہ پر تنقید سے نہیں رکے۔ صدر رجب طیب اردغان نے گزشتہ ماہ یو اے ای کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے امکانات کے بارے میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف اقدام کو کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں عالمی خبررساں ایجنسی رائٹر نے بڑی تفصیل سے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ ویسے بھی صدر ترکی پہلے سے ہی علاقائی امور میں بہت زیادہ سرگرم ہوچکے ہیں۔ وہ وقت بہ وقت ترکی کی طاقت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ترکی نے شام، عراق، قطر، صومالیہ اور افغانستان میں اپنی فوج تعینات کررکھی ہے جبکہ بلقان میں متعین امن فوج میں بھی ترک فوج شامل ہیں اور اس کی بحریہ بحیرہ روم اور بحیرہ ایجین میں گشت کررہی ہے جہاں اس نے توانائی اور علاقائی مفادات کا دعویٰ کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس رپورٹ میں ترک افواج کی توسیع سے متعلق ایک نقشہ بھی بھیجا ہے اور کہا ہے کہ انقرہ نے سوڈان کے جزیرہ سواکین میں بھی ایک بحری اڈہ تعمیر کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی ہے۔ سوڈان بھی کبھی سلطنت عثمانیہ کے تسلط میں تھا۔ اس اقدام سے ترکی کو بحیرہ اہمر تک راست رسائی حاصل ہوگی۔

جنوبی ایشیاء میں بھی ترکی، پاکستان سے قربت بڑھا رہا ہے اور اس کے لئے اُس نے مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائی ہے نتیجہ میں انقرہ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات تلخ ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں گزشتہ سال رجب طیب اردغان نے کشمیر کے حق میں بولا تب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اکتوبر میں اپنا دورہ انقرہ منسوخ کردیا اور شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کی پرزور مذمت کی۔