ڈاکٹر سید حسام الدین
سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
ماہر القادری کا مذکورہ سلام سیرت النبی ﷺ کا نمونہ ہے جس کا پس منظر اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس بیان کی نشاندہی کرتا ہے جب آنحضرت ﷺ پر پہلی بار وحی نازل ہوئی تھی آپؐ پریشانی کی حالت میں گھر میں داخل ہوئے تو زوجہ محترمہ نے آپؐ کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپؐ پریشان نہ ہو اﷲ آپؐ کو رسوا نہیں کرے گا چونکہ آپؐ غریبوں ، محتاجوں اور بیکسوں کی مدد اور دستگیری کرتے ہیں کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔
دوسرے مصرعہ ’’سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی ‘‘ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ انھوں نے بڑے بڑے بادشاہوں اور شہنشاہوں کے دربار دیکھے، لیکن محمدؐ کے دربار کے دبدبہ کا عالم اور ہی ہے ۔ یہ تو سرکار کی امارت کا ایک پہلو تھا دوسری طرف آپ کی زندگی فقر و فاقہ کی حالت میں گذرتی ۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک ایک مہینے تک ہمارے پاس آگ نہیں جلتی تھی صرف کھجور اور پانی پر گذر ہوتا تھا ۔ (شمائل ترمذی )
آپ ﷺ محبت ، جود و کرم کا پیکر تھے ۔ آپؐ نے محبت ، صبر ، درگذر اور معافی کو اپنا شعار بنالیا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمت للعالمین بناکر بھیجا تھا ۔ آپؐ کا مشن محبت اور امن سے لیس تھا ۔ اسی محبت و مودت کے بل بوتے آپؐ نے ساری دنیا میں اسلام پھیلادیا ۔ یہی آپؐ کے کردار مبارکہ کا اعجاز تھا کہ سخت ترین دشمن بھی آپ کے مطیع و فرمانبردار بن گئے ۔ سرکار دوعالم ﷺ نے اسرار محبت کو خوب سمجھا اور اُن کو سمجھایا ۔ آپؐ کی محبت کا فلسفہ اتنا عظیم اور کارگر تھا کہ ساری انسانیت کو ایک صف میں کھڑا کردیا ۔ نہ کوئی گورا رہا نہ کوئی کالا ، کوئی امیر رہا نہ غریب ، کوئی عجمی رہا نہ عربی ۔ کیسی محبت کا جادو تھا کہ مخلوق کو خالق سے ملادیا ۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں آپؐ کا خطبہ حجۃ الوداع سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں آپؐ نے انسانی حقوق و فرائض کی واضح طورپر نشاندہی فرمادی ۔ نسل انسانی کو ایک کنبہ قرار دیا ۔ یہی محبت اور زندگی کا راز و اسرار ہے ۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے روانہ ہوئے تو دشمنانِ اسلام نے مخبروں اور جاسوسوں کو آپؐ کی ٹوہ میں لگادی ۔ چنانچہ انعام اور اکرام کی لالچ میں ایک شخص جس کا نام سراقہ بن جعشم تھا آپؐ کا پیچھا کیا لیکن اس کے گھوڑے کا پاؤں ریت میں دھنس گیا ۔ آخرکار سرکار مدینہ اُسے نہ صرف معافی دی بلکہ امن و امان کا پروانہ بھی تحریر کرکے حوالہ کیا ۔ اس واقعہ سے آنحضرت ﷺ کی صفت عفو و درگذر کا اظہار ہوتا ہے ۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو ماہر نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
سلام اُس پر کہ جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
یہاں پر قباء سے مراد انعام و اکرام کے ہیں جو سراقہؓ کو عطا ہوا ۔
ابوسفیانؓ آنحضرت ﷺ کے قرابت داروں میں ہے اس کے باوجود یہ آپؐ کے خون کے پیاسے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب یہ گرفتار کرکے حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو نہ صرف آپؓ کو معافی ملی بلکہ اعلان کردیا گیا کہ جو بھی ابو سفیانؓ کے گھر پناہ لے گا اسے پناہ ملے گی ۔ ابوسفیان بعد میں اسلام قبول کئے ۔ اس واقعہ کو ماہر نے اس طرح نظم کیا ہے ؎
سلام اُس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اُس پر ابوسفیانؓ کو جس نے امان دے دی
سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت سے صدیوں قبل مختلف مذہبی صحائف جیسے توریت ، انجیل ، زبور اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں جیسے ویدوں ، بھگوت گیتا وغیرہ میں آپؐ کا ذکر آچکا ہے ۔ ہندو صحائف میں آپؐ کو کلکی اوتار سے تعبیر کیا گیا ہے ہے ۔ سرکار دوعالم ﷺ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کافی تکالیف برداشت کریں۔ مخالفوں نے آپؐ کو جسمانی اذیتیں پہونچائی اور زخمی اور مجروح بھی کیا ۔ اس ضمن میں طائف کا واقعہ مشہور ہے ۔ اہل طائف نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کی جوتیاں خون سے بھرگئیں۔ ماہر القادری ؒ نے واقعہ طائف کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
سلام اُس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اُس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں
بعثت کے بعد آپ نے جب تبلیغ و دعوت کا کام شروع کیا تو نہ صرف غیربلکہ گھر والے بھی تنگ کرتے تھے جیسے ابوجہل اور ابوسفیان ۔ سرکار دوجہاں ﷺ کے ساتھ گھر والوں اور غیروں نے جس طرح کا رویہ اپنایا تھا اسے ماہرؔ نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے