نئی دہلی۔راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ مسلمانوں سے دارا شیکوہ سے حوصلہ لینے کو کہہ رہے ہیں۔
سال2017میں دہلی کی ایک سڑک کا نام بدل کر دارا شیکوہ کیاگیاتھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) نے تاریخی نصاب میں دارا شیکوہ کی تاریخی واقعات کو شامل کرنے کے لئے ایچ آرڈی وزرات کو ایک تجویز پیش
کی ہے۔اس کے علاوہ اے ایم یو میں دارا شیکوہ پر ملک کی پہلی محقیق بنچ قائم کررہا ہے۔سنگھ کی مختلف تنظیمیں دارا شیکوہ کی خوبیاں بتانے کے لئے الگ الگ پروگرام منعقد کرتی آرہی ہیں اور آگے بھی کئی پروگرام منعقدکرنے کا منصوبہ ہے۔
آخر مغل بادشاہ اورنگ زیب کے بھائی دارا شیکوہ میں ایسا کیاہے جس کی وجہہ سے آرایس ایس اس کی گرویدہ ہورہی ہے؟۔دارا شیکوہ کو لیبرل مسلمان مانا جاتا ہے۔
سنگھ دارا شیکوہ میں وہ ساری خوبیاں دیکھ رہی ہے جو وہ چاہتی کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں بھی اپنائیں۔
سنگھ ہمیشہ سے کہتے آیا ہے کہ ہندوتوا دھرم نہیں بلکہ ایک نظام زندگی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر ہندوستانی چاہئے وہ ہندو ہو یا مسلمان‘ اس ہندوتوا کو اپنائے۔
سنگھ کو یہ خصوصیت دارا شیکوہ میں نظر آتی ہے۔
اس لئے سنگھ اس کوشش میں ہے کہ دارا شیکوہ کو مسلمانوں کے بیچ میں ایک ہیرو کی طرح پیش کیاجائے۔ سنگھ کے جنرل سکریٹری کرشنا گوپال نے دارا شیکوہ کو اچھا مسلمان بتایاہے۔
ایک پروگرام میں انہوں نے کہاکہ ہندوستان کو یہودی‘ پارسی‘ جین اور بدھ محفوظ سمجھتے ہیں لیکن چھ سو سال تک حکمرانی کرنے والے مسلمان کیوں محفوظ نہیں سمجھتے؟۔
انہوں نے کہاکہ اگر اورنگ زیب کی جگہ دارا شیکوہ مغل سمراٹ ہوتے تو اسلام زیادہ ترقی کرتا۔سنگھ کی محاذی تنظیم جو تاریخ کے شعبہ میں کام کرتی ہے نے
داراشیکوہ کافی ریسرچ کیاہے اور ان کا کہناہے کہ دارا شیکوہ نے ہندوستان کی تہذیب پر ریسرچ کیاتھا اور وہ اس سے کافی متاثر تھے