سيرت وسنت كي حفاظتاور تدويناِس اُمت كا إعجاز

   

یہ حقیقت مسلم ہے کہ صرف تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردار کی تعلیمات پر مبنی کتابیں ہدایت و رہنمائی کیلئے کافی نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ اقتداء اور تقلید کے لئے نمونۂ عمل اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ساتھ ہی رہنما کی زندگی نگاہوں کے سامنے ہونی چاہئے ۔ بناء بریں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے ایک سو چار آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا ۔ اوامر و نواہی ، مثالوں اور مواعظ و حکمت کی باتوں اور عبرت کے پیغامات پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور ان کی زندگی کو کائنات کے لئے ایک کھلی کتاب بنادیا تاکہ لوگ انبیاء کرام کے عملی نمونہ کو بآسانی اپناکر راہ نجات پاسکیں۔
اﷲ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء کرام میں سے ہر ایک کو ایک خاص ملک ، خاص قوم کی طرف ان کی زبان میں مبعوث فرمایا ۔ ان کی نبوت مخصوص قوم اور محدود علاقہ کے ساتھ خاص تھی ۔ ان کی ساری زندگی تاریخ کے صفحات میں محفوظ نہیں، ان کی حیات کاہر پہلو اور ہر گوشہ موجود نہیں ۔ ان کی سیرت و سوانح سے متعلق کچھ معلومات اور مخصوص واقعات ہی ملتے ہیں ، ان میں سے اکثر و بیشتر انبیاء کرام کے ناموں سے دنیا واقف ہی نہیں ہے اور اگر واقف ہے تو ان کی سیرت سے واقف نہیں ۔
دنیا میں سینکڑوں مذاہب ایسے ہیں ، جو اپنی قدامت اور صداقت کے دعویدار ہیں ، ان کے پاس اخلاقیات کی تعلیم موجود ہے لیکن ان میں کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جس کی عملی زندگی اس کے ماننے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکے۔ چنانچہ ہندو مذہب پر نظر کریں تو اس مذہب کو سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہے اور اس میں کئی مصلح قوم بھی گزرے ہیں ۔ لیکن آج وہ ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں اور اگر واقف ہیں تو ان کی زندگی کے گوشے تاریخ کے اوراق میں مذکور نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس صدی اور کس زمانے کے ہیں ۔ ایران کے پرانے مجوسی مذہب کا بانی زرتشت اب بھی لاکھوں افراد کی عقیدت کا مرکز ہے ۔ قدیم ایشیاء کا وسیع مذہب بدھ ہے، جو آج بھی برما، چین ، جاپان اور تبت میں موجود ہے لیکن بدھ کی زندگی اور سیرت کے کل گوشے تاریخ میں محفوظ نہیں ہیں۔ کیا ان کی زندگیوں کے ادھورے اور غیرمربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی کی رہنمائی کے لئے کافی ہوسکتے ہیں ؟
قرآن مجید میں حضرت آدم ، حضرت ادریس ، حضرت نوح ، حضرت ھود ، حضرت صالح ، حضرت لوط ، حضرت ابراھیم ، حضرت اسمٰعیل ، حضرت اسحق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت شعیب ، حضرت ایوب ، حضرت موسیٰ ، حضرت عزیر ، حضرت ہارون ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت یونس ، حضرت الیاس ، حضرت الیسع ، حضرت ذوالکفل ، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ ، حضرت عیسیٰ علیھم الصلوٰۃ والسلام کے نام اور ان کی زندگی کے اہم واقعات اور چنندہ صفات موجود ہیں، مگر ان کی کامل سیرت موجود نہیں ہے۔ نہ قرآن میں محفوظ ، نہ بائبل میں اور نہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کی زندگیوں کے مکمل حالات موجود ہیں۔
کل کائنات میں تمام ادیان و مذاہب اور اقوام و ملل صرف نبی آخر الزماں محمد عربی ﷺ کی واحد ہستی ہے جن کی مبارک زندگی کے کل صفحات دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ آپؐ کی زندگی کا ہرپہلو ولادت باسعادت سے وفات تک روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی سیرت دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والے انسان کی زندگی کے ہر مرحلہ اور شعبہ میں رہنمائی کرتی ہے ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے جہاں اس اُمت کے لئے اپنی آخری اور جامع کتاب قرآن پاک کو نازل فرمایا وہیں اس اُمت کو توفیق عطا کی کہ وہ اپنے نبی کی سیرت کے تمام گوشوں کو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لئے محفوظ رکھ سکیں۔
تمام ادیان و ملل میں صرف اُمت محمدیہ کو یہ شرف و اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے نبیؐ کی حیات مبارکہ کے ایک ایک حصہ کو ایک ایک جز کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ۔ نیز سیرت اور سنت کی حفاظت کے لئے فن رجال کو مدون کیا یعنی پانچ لاکھ افراد کی سوانح حیات کو قید کتابت میں محفوظ کردیا گیا ۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کا کمال یہ ہے کہ وہ عیب و نقص سے منزہ ہے ۔ تمام علمائے اخلاق و ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کی عمر کے ابتدائی چالیس سال اخلاق و فضائل کے اُبھرنے اور بننے کا اصل زمانہ ہوتا ہے اور جو سانچہ اس عرصہ میں ڈھل گیا وہ بقیہ زندگی میں موثر رہیگا ۔
جب کفار مکہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے عقلی و حسی معجزات کا انکار کیا تو آپ ﷺ نے اپنی صداقت و حقانیت پر ایک وجدانی اور اخلاقی معجزہ پیش کیا ’’ اس سے قبل ایک مدت گزارچکا ہوں کیا تمہیں عقل نہیں ہے ‘‘ ۔(القرآن) یعنی میں تم میں کوئی نیا نہیں ہوں ، میں نے اپنی زندگی کے چالیس برس تم میں گزارے ہیں ، میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اس طویل عرصہ میں کبھی تم نے مجھ میں خلاف انسانیت و مروت کوئی بات دیکھی ہے ؟ آپ ﷺ نے نبوت کی صداقت پر اعلان نبوت سے پیشتر کی زندگی کو بطور دلیل پیش کیا اور وہ کفار مکہ جنھوں نے مختلف محیرالعقول معجزات پر کچھ نہ کچھ ہٹ دھرمی دکھائی وہ آپ ﷺ کے معجزانہ اخلاق و کردار میں کوئی عیب و نقص بیان کرنے سے قاصر رہے ۔ گویا آپ ﷺ کی سیرت طیبہ عالمگیر ہونے کے ساتھ ہر نقص و عیب سے محفوظ و مامون ہے ۔
جس طرح قرآن پاک ساری انسانیت کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے ، اسی طرح سیرت مبارکہ اس کی عملی تفسیر ہے گویا قرآن پاک متن ہے اور سیرت طیبہ اس کی جامع شرح ہے ۔ قرآن مجید اجمال اور سیرت طیبہ اس کی تفصیل ہے ۔ قرآن پاک کتاب ساکت ہے اور سیرت طیبہ کتاب ناطق ہے ۔ دونوں میں یگانگت اور موافقت پائی جاتی ہے ۔
بناء بریں محققین نے لکھا ہے کہ اگر دنیا سے سیرت کی تمام کتابیں مفقود ہوجائیں اور کوئی حصہ زمانے میں باقی نہ رہے تب بھی حضور پاک ﷺ کی سیرت محفوظ رہے گی کیونکہ قرآن کریم ہی سیرت کی سب سے پہلی اور آخری کتاب ہے ، جس نے حضور پاک ﷺ کی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کیا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید سے متعلق ارشاد فرمایا : ’’بے شک اس ذکر ( قرآن ) کو ہم نے ہی اُتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ‘‘ ۔ (سورۃ الحجر؍۹)
قرآن پاک کی حفاظت کی بشارت ، حقیقت میں تاقیامت سیرت طیبہ کے محفوظ رہنے کی طمانینت ہے ۔