نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز تین طلاق کو جرم مقراردینے والے قانون کی دستوری درستگی کی جانچ کے لئے رضامندی کااظہار کیامگر دیو بند کے علماؤں جنھوں نے مذکورہ قانون کی قانونی حیثیت کو چیالنج کیا ہے ان سے کہاکہ دیگر عقائد میں بھی اس طرح کے عمل کو مجرمانہ کاروائی قراردی گئی ہے۔
درخواست گذاروں کی جانب سے عدالت میں سینئر وکیل سلمان خورشید پیش ہوئے تھے‘جنھوں نے بحث میں کہاکہ مرکز کو تین طلاق پر قانون لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ عدالت عظمی نے پہلے ہی اس کو غیرقانونی اور غیر دستور قراردیدیا ہے۔
جسٹس این وی رمنا اور اجئے رہتوگی پر مشتمل ایک بنچ نے استفسار کیاکہ غیرقانونی قراردئے جانے کے بعد بھی یہ عمل اگر جاری رہا تو اس کیس کا علاج کیاہے۔
کم عمر میں شادی اور جہیز کی عمل کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ بنچ نے خورشید سے کہاکہ اس طرح کے عمل کو بھی جرائم میں شامل کیاگیاہے۔
بتایاجارہا ہے کہ وہ قانون کے تین زاویوں سے جانچ کرے گی ایک مجرمانہ عمل‘ جیل اور ملزم کو ضمانت کی منظوری کے دوران متاثرہ عورت کی بھی ضرورتوں پر سنوائی اس میں شامل ہے۔
پھر مذکورہ عدالت مرکز کو ایک نوٹس جاری کی ہے اور مسلم ویمن(پروٹوکشن آف رائٹس ان میریج) ایک2019کے خلاف دائر درخواستوں پر اس کاردعمل پیش کرے۔
درخواست گذار وں میں سے ایک جمعیت علماء ہند دعوی کیاہے کہ مذکورہ قانون سماجی غلطی کے لئے غیر متناسب سزا اور امتیازی سلوک ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ مذکورہ قانون 31جولائی کے روز پارلیمنٹ میں منظور کیاگیاتھا جو غیرضروری ہے
کیونکہ22اگست2017کو سپریم کورٹ نے اس فوری طور پر طلا ق دینے کے عمل کو غیر دستوری قراردیا تھا۔
جمعیت نے کہاکہ ہندو قانون کے تحت بیوی کو چھوڑ دینا کوئی جرم نہیں ہے مگر صرف طلاق کی صورت میں۔
اس کے علاوہ نیا قانون تین طلاق دینے والے کے لئے قابل جرم او رغیر ضمانتی عمل قراردیاجارہا ہے جبکہ برق رفتاری اور غفلت میں گاڑی چلانے کے دوران پیش آنے والی موت پر ضمانتی جرم عائد کیاجارہا ہے۔
دستور کے ارٹیکل14‘15 اور21کی اس کو خلاف ورزی قراردیاگیا ہے