سپریم کورٹ کا فیصلہ ہندوتوا کو بڑھاوا دے گا!

   

غضنفر علی خان

رام مندر۔ بابری مسجد تنازعہ کا جو فیصلہ سپریم کورٹ نے 7 نومبر 2019ء کو دیا وہ بھلے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو لیکن اس فیصلے کی وجہ سے آج کی وہ طاقتیں جو ہندوتوا کو فروغ دے رہی ہے اور جن کی آنکھوں میں یہ خواب ہے کہ ہندوتوا ایک سیاسی نظریہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیا جائے گا اُن کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں، فیصلہ خود بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ، اس فیصلے کے بعد عام ہندوستانی مسلمانوں نے جس صبر و تحمل اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ ہندوتوا کے حامیوں کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ نہ صرف ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہوگی بلکہ اس کاپورا ایجنڈا عمل میں آئے گا ۔ مسلم طبقہ کی اس لئے بھی ستائش کی جانی چاہئے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناطے اس فیصلے کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے نہ مسلم قیادت اور نہ عام مسلمان مظاہرے کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے بلکہ ایک منظم اور سمجھدار قوم کی طرح اُنھوں فیصلے کو من حیث الکل تسلیم کرلیا ۔ اب بعض گوشوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ تنازعہ سے منسلکہ فریقین خاص طورپر مسلمان کے بعض گروپ اس فیصلے پر نظرثانی کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع ہونگے اس میں بھی مختلف فریقین سامنے آرہے ہیں ۔ حالانکہ فیصلہ آنے کے بعد سب سے پہلے مسلم طبقہ کے تمام فریقین نے کم و بیش متفقہ طورپر عدالت عالیہ کے فیصلہ کو تسلیم کرلینے کا اعلان کیا تھا جبکہ ہندوبرادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فریق نے ایسی کوئی گیارنٹی نہیں دی تھی کہ وہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کریں گے ۔ ایک نہایت حساس و نازک مسئلہ پر جو براہ راست مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے جن کا عین تعلق ہے عام مسلمان کا یہ رویہ تاریخ ہند میں یاد رکھا جائے گا۔ مسلمانوں کو یہ اندازہ تھاکہ سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی مسئلہ کا حق ملکیت تاریخی شواہد کی روشنی میں مسلمانوں کو ملے گا ۔ ہندو فریق نے ہمیشہ سماعت کے دوران اپنے آ ستھا کی بات کہی ہے ، ایک بات جو بطور خاص فیصلہ میں کہی گئی ہے اُس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آیا 500 برس قبل بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی ۔ محکمہ آثار قدیم کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ آثار قدیمہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ مسجد کسی ہندو عبادت گاہ کو مسمار کرکے بنائی گئی ہے یعنی اس بات کا کوئی حتمی ثبوت آثار قدیمہ پیش نہیں کرسکا کہ وہاں پہلے رام مندر ہوا کرتا تھا اور اس کو مسمار کرکے بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی ۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے دستوری بینچ کے پانچوں ججس نے اپنے متفقہ فیصلہ میں کہا ہے کہ اس بات کاکوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا کہ وہاں پہلے کوئی مندر تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسی فیصلہ میں اوراسی سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ سوال ہندوؤں کے مذہبی جذبات یا اُن کی آستھا سے جڑا ہوا ہے اس لئے فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ رام مندر کی دوبارہ تعمیر کی جانی چاہئے اور مسلمانوں کو اس جگہ سے ہٹ کر کہیں بھی (5) ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کیلئے فراہم کی جانی چاہئے ، گویا حق ملکیت کافیصلہ کسی قانون کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ ایک سیکولر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ آستھا کی بنیاد پر کیا ہے۔ مسلم طبقہ کے دانشوروں کا یہ احساس غلط نہیں ہے کہ ایک سیکولر ملک میں مذہبی عقیدتمندی کی بنیاد پر رام جنم بھومی و بابری مسجد جیسے تنازعہ کی یکسوئی نہیں ہونی چاہئے ، یہ احساس ہے کہ ایک سیکولر ملک میں کیسے کسی مسئلہ کو محض مذہبی و عقیدتمندی کی اساس پر کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ فیصلے میں پانچوں فاضل جج نے متفقہ طورپر یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اب اور آئندہ کسی بھی مذہبی مقام یا عبادت گاہ کو اس طرح منہدم کرنے کے عمل کی کسی کو اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہ بات اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوتوا کی طاقتیں اپنا ایک ایجنڈہ رکھتی ہے جس میں بشمول جامع مسجد (دہلی) اور کئی قدیم مساجد پر اسی قسم کا دعویٰ یہ طاقتیں کرتی ہیں کہ یہ مذہبی عمارتیں ، یہ عبادت گاہیں کسی نہ کسی ہندو عبادت گاہ توڑکر بنائی گئی تھیں اس فیصلے کے بعد یقینی طورپر یہ گمان ہوتا ہے کہ اپنے حوصلہ بلند کرکے یہ طاقتیں پاؤں پھیلائیں گی اور کسی نہ کسی وقت مستقبل میں ایسے مسائل اُٹھیں گے ۔ صرف عبادت گاہوں کی شہادت کی بات نہیں ہے بلکہ اس ایجنڈہ میں پوری طرح ہندوستان کے نقشہ کو بدلنا بھی اُن کے پیش نظر ہے ۔ کئی مسائل ہیں جن پر سوائے اُن طاقتوں کے اور کوئی سیاسی طاقت ایسا نہیں سونچتی ۔ پرسنل لاء میں تبدیلی قانون ازدواج میں تبدیلی ، تین طلاق کا مسئلہ اور ایسے بہت سے مسائل ہیں جو ہندوستان کی مسلم اقلیت کی شناخت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان تمام مسائل میں موجودہ حکمراں طبقہ گہری دلچسپی رکھتا ہے اور کسی صورت میں اُن کو زبردستی حل کرنا چاہتا ہے ۔ رام مندر ایسا مسئلہ ہے جو اس کے ایجنڈہ کا تاج بنا ہوا تھا ۔ اب جب کہ یہ تاج ان ہی طاقتوں کے ہاتھوں آگیا ہے تو دوسرے مسائل کی یکسوئی میں شاید اُنھیں کوئی دقت نہیں ہوگی ۔ غرض ہمارے ملک میں مذہبی رواداری کو جان لیوا خطرہ لاحق ہے ، رام مندر کو آستھا کا مسئلہ سمجھا گیا ہے اور ہندوتوا کے احیاء کی تمام کوششیں یہیں سے شروع ہوئی تھی اور ساری تحریک کا مرکز یہی تھا ۔ اب اس کامیابی کے بعد ظاہر ہے کہ آج کی حکمراں طاقتیں اپنے ناپاک ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے میں کوئی پس و پیش نہیں کریں گی ۔ یہ اندیشہ بلکہ یہ خوف اب سارے ہندوستان کو لاحق ہے کہ حکمراں طبقہ کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں سے تو یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ ’’سمجھ ہر ایک شئے کو مگر فریب کھائے گا ‘‘ ۔ لیکن مسلم اقلیت اس ہونے والے یلغار کا کیسے مقابلہ کرے گی یہ سب سے اہم سوال ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ چپ چاپ ان سارے منصوبوں کی خاموش تماشائی تو نہیں بن سکتی یا خاموش تماشائی بن کر اپنی شناخت کو نہیں کھوسکتے ۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو ہندوستانی مسلمانوں کو آخر کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ۔ جذباتی نعروں ، گلی کوچوں میں مظاہروں سے یہ صورتحال نہیں بدل سکتی ۔ جو مسلم نام نہاد قیادت کا خاص وطیرہ رہاہے البتہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے کہ ان طاقتوں کو حقائق سے واقف کروایا جائے اور نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو ساتھ لے کر ایک نئی راہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ مسلمان اگر ہندوتوا طاقتوں کے پہلے نشانہ پر ہیں تویہ بھی سمجھ لینا چاہے کہ ہریجن ، گریجن ، کمزور اور پسماندہ طبقات بھی ایسے ہی اندیشوں کا شکار ہیں اور یہ خوف اُن کو بھی لاحق ہیکہ اُن کی جو بھی شناخت ہے وہ بے رحمی سے ختم کردی جائیگی ۔ جہاں تک دوسری اقلیتوں کا تعلق ہے جن میں سکھ ، پارسی ، عیسائی اور بدھسٹ شامل ہیں وہ بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف وہ ہی ہندوتوا کے شکنجہ میں کسے جارہے ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ تمام کمزور طبقات جو ہندوستانی سماج میں بستے ہیں اُن کے سروں پر بھی ہندوتوا کی تلوار لٹک رہی ہے اس کے علاوہ ہندوستان کی تمام وسیع النظر اور سیکولر طاقتوں کو متحدہوکر ہندوتو کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا ، اس ایک فیصلے کے بعد ملک کے عدلیہ کو یہ مسئلہ درپیش ہوگیا کہ کیسے وہ سیکولر اقدار کو برقرار رکھے گی ۔ ہر مرتبہ آستھا یا عقیدت کی بنیاد پر اگر فیصلے ہونے لگیں تو پھر ہندوستان کی خیر نہ ہوگی ۔ ایک بہت سنگین مسئلہ درپیش ہے کہ کیسے عدلیہ کے نظام عدل کو متوازن بنایا جائے جو اس فیصلہ کے بعد یقینی طورپر اپنا توازن کھوچکا ہے ۔ اب اگر نظرثانی کی اپیل کی جاتی ہے تو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ایک بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرلینے کی بات ازل سے کہی تھی اور نظرثانی کی اپیل کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ سے متفق نہیں ہیں ۔ مسلم فریقین کے وکیل راجیودھون خود بھی نظرثانی کی اپیل داخل کرنے پر راضی ہیں ، اب اس فیصلہ میں بنیادی تبدیلی تو شاید نہیں آسکتی اس لئے نظرثانی کی کوشش بھی شاید بارور نہیں ہوسکتی ۔٭