سکریٹریٹ مساجد کی شہادت ، خاموش سیاسی قائدین کے خلاف ماحول

   

سیاسی حمایتی مذہبی اداروں ، تنظیموں اور شخصیتوں کو بھی عوامی مخالفت کا سامنا
حیدرآباد۔اہل سیاست عوام کے استحصال کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اور بھارتیہ جنتا پارٹی و آر ایس ایس کے علاوہ ہندو توا قوتوں کی جانب سے ان لوگوں کو جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان کے چہروں سے نقاب اٹھنے نہیں دیتے بلکہ جب کبھی ان پر افتادپڑتی ہے یا ان کے اصلی چہرے عوام میں بے نقاب ہونے لگتے ہیں تو ان پر شدید تنقیدوں کے ذریعہ نشانہ بناتے ہوئے ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی جا تی ہے۔ شہر حیدرآباد میں سیکریٹریٹ کی مساجد کی شہادت پر اختیار کردہ خاموشی کے بعد عوام میں ان سیاسی قائدین کے خلاف ماحول تیار ہونے لگا ہے جو کہ اس مسئلہ پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور مساجد کی شہادت پر بھی حکومت کے خلاف لب کشائی سے گریز کر رہے ہیں لیکن ان کی زبانیں اب بھی بابری مسجد کی شہادت کے تذکرہ سے نہیں تھکتی جبکہ وہ شہر میں شہید کی جانے والی مساجد کے معاملہ پر مکمل خاموش ہیں۔ سیکریٹریٹ کی دونوں مساجد مسجد دفاتر معتمدی اور مسجد ہاشمی کی شہادت پرسیاسی ٹولہ کی خاموشی پر عوام میں شدید برہمی پائی جانے لگی ہے اور ان کی اس خاموشی پر مختلف گوشوں سے اعتراض کیا جانے لگا ہے علاوہ ازیں ان کی خاموشی کے سبب ان کے تائیدی مذہبی اداروں‘ شخصیتوں اور تنظیموں کوبھی عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ بھی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔ سیاسی قائدین کو درپیش عوامی مخالفت سے محفوظ رہنے کیلئے سیاستدانوں کی جانب سے کئی طرح کی کوششیں کی گئیں اور مساجد کی شہادت سے شہریوں کی توجہ ہٹانے کیلئے ناکام کوششیں کی جاتی رہیں لیکن اب تک کی گئی ناکام کوششوں کے بعدبھی شہریوں کی جانب سے اس مسئلہ کو نظر انداز نہ کئے جانے اور سوالات کا سلسلہ جاری رکھے جانے سے پریشان سیاستدانوں کے دفاع کیلئے ہندو توا قوتوں نے کمر کس لی ہے اور ان پر تنقیدوں کے ذریعہ انہیں ہندو توا کے کٹر مخالف کی حیثیت سے پیش کرنے کا حربہ اختیار کرلیا ہے جس سے دونوں کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔ہندو توا تنظیموں اور آر ایس ایس کی جانب سے مسلم سیاسی قائدین پر تنقید سے عام بھولے بھالے مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ جن کے خلاف آر ایس ایس اور ہندو توا قوتوں کی جانب سے شدید بیان بازی کی جا رہی ہے وہ ان کیلئے کس طرح کام کرسکتے ہیں جبکہ بھولے بھالی ہندو شہریوں میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ہندو توا تنظیمیں ہی ہیں جو کہ ملک کو ایسے عناصر سے بچاسکتی ہیں جبکہ دونوں قوموں کے ماننے والوں کا سیاسی استحصال کرنے کیلئے کی جانے والی یہ کوششیں اب مزید کارگر ثابت نہیں ہوں گی کیونکہ حیدرآباد میں شہریوں کی جانب سے یہ کہاجانے لگا ہے کہ اعظم خان جیسی شخصیت کو برسر اقتدار طبقہ نے نشانہ بنایا ہے اور وہ اپنی حق بیانی کے سبب مشکلات و مصائب کا شکار ہیں اور یہاں ان کی طرح کے کسی بھی حالات کا شکار ہونے سے محفوظ رہنے کیلئے برسراقتدار طبقہ کے مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ شہریوں کی جانب سے کہا جانے لگا ہے کہ اہل سیاست کو ہندو توا یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اب ان سیاستدانوں کے تائیدی مذہبی ٹولوں کو کون بچائے گا کیونکہ مساجد کی شہادت کے معاملہ میں اگر مذہبی تنظیموں اور قائدین کی جانب سے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو وہ عوام میں اپنی وقعت کھو دیں گے ۔ مسلمانوں کی جانب سے مذہبی تنظیموں اور قائدین کی جانب سے اخباری بیانات پر اکتفاء کئے جانے کو بھی نوٹ کیا جانے لگا ہے اور کہا جار ہاہے کہ اگر مذہبی شخصیتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر صرف بیانات کی حد تک اکتفاء کیاجاتا ہے تو ان کا وقار مجروح ہوگا۔