سیاسی انحراف کے رجحانات

   

Ferty9 Clinic


ملک میں ایک روایت پوری شدت کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے ۔ یہ روایت سیاسی انحراف کی ہے ۔ اقتدار میں حصہ داری یا پھر اپنے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش ہونے سے بچانے یا قانونی تگ و دو سے خود کو بچائے رکھنے کیلئے سیاسی قائدین کسی بھی ریاست یا ملک میں عام انتخابات سے قبل سیاسی انحراف کو اپنے کیرئیر کا لازمی حصہ بناتے جا رہے ہیں۔ جس کسی ریاست میں انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں وہاں سیاسی قائدین کے انحراف کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ جس جماعت میں ہوتے ہوئے وہ اپنے سیاسی کیرئیر کو عروج پر پہونچاتے ہیں اگر اس جماعت کے انتخابی امکانات کمزور نظر آتے ہیں اور شکست کے اندیشے غالب آجاتے ہیں تو پھر یہ قائدین اپنی جماعت کو مستحکم کرنے اور رائے دہندوں اور عوام میں اعتماد کو بحال کرنے کیلئے سرگرم ہوجانے اور جدوجہد کرنے کی بجائے دوسری جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دوسری جماعتیں بھی اس طرح کے قائدین کی پوری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنے کیڈر میں جوش وخروش پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سے ملک میں جمہوری نظام کمزور ہونے لگتا ہے ۔ سیاسی قائدین عوامی خدمات کیلئے جدوجہد سے زیادہ اپنے لئے اقتدار اور عہدوں کے حصول کو ترجیح دیتے ہوئے انحراف کرتے ہیں اور دوسری جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے جہاں آرجے ڈی سے تعلق رکھنے والے قائدین نے ایک کے بعد دیگر ے برسر اقتدار جنتادل یو یا پھر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ حالانکہ وہاں مقابلہ انتہائی سخت رہا اور جن قائدین نے انحراف کیا ہے اگر انہوں نے سخت جدوجہد کی ہوتی تو ان کی اپنی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوسکتا تھا ۔ تاہم ان قائدین نے اپنی جماعت یا نظریات کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے لئے اقتدار اور عہدوں کو ترجیح دی اور انحراف کرلیا ۔ اسی طرح اب جبکہ بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور صرف چند مہینے کا وقت باقی رہ گیا ہے ایسے میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس کے قائدین کے انحراف کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔
ریاست میں عوامی تائید حاصل رہنے کا دعوی کرنے والی بی جے پی تقریبا ہر روز ترنمول کانگریس کے قائدین کو ترغیب دیتے ہوئے یا پھر لالچ دیتے ہوئے اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے ۔ ترنمول کا الزام ہے کہ اس کے قائدین کو مقدمات کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے خوفزدہ کرتے ہوئے انحراف کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا کہ جن ترنمول قائدین کو مختلف مقدمات میں پھانسا گیا اور ماخوذ کیا گیا تھا انہوں نے بعد میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور ان کے خلاف مقدمات کو عملا بند کردیا گیا ۔ تمام فائیلیں برفدان کی نذر ہوگئیں۔ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان قائدین نے ‘ جو بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے ‘ کوئی غلط کام کیا ہی نہیں تھا ۔ یہی طریقہ کار آندھرا پردیش میں بھی اختیار کیا گیا ۔ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کے کچھ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف رقمی خرد برد کے مقدمات درج کئے گئے ۔ان کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور دوسری ایجنسیوں کو سرگرم کیا گیا ۔ بعد میں ان ارکان پارلیمنٹ نے بی جے پی میں شمولیت احتیار کرلی ۔ ان کی مدد سے مرکزی حکومت نے کچھ اہم قوانین کو ایوان میں منظوری دلائی ۔ اس کے بعد ان تمام کے خلاف مقدمات کو برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے نتیجہ میں ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔ یہ ناقابل تلافی نقصان ہے تاہم اس کی کسی بھی جماعت کو پرواہ نہیں رہ گئی ہے اور خاص طور پر بی جے پی ایسا کرنے میں سب سے آگے ہے ۔
بی جے پی کا دعوی ہے کہ مغربی بنگال میں آئندہ حکومت اس کی تشکیل پائے گی اور ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کو شکست سے دوچار ہونا پڑیگا ۔ اگر کوئی بھی پارٹی عوامی تائید حمایت اور ان کے ووٹ سے اقتدار حاصل کرتی ہے تو یہ جمہوریت کے استحکام کا موجب ہوتا ہے تاہم جب کوئی جماعت دوسری جماعتوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے قائدین کو مقدمات سے خوفزدہ کیا جاتا ہے ‘ تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف پیدا کرتے ہوئے انہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ اقتدار کا بیجا استعمال ہے ۔ یہ ایک منفی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے اور اس سے ہندوستان کی عظیم جمہوریت کو نقصان پہونچتا ہے ۔ سبھی جماعتوں کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔