سیاسی قائدین کی بے راہ روی

   

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

ہندوستان میں وقفہ وقفہ سے سیاسی قائدین اور ریاستی و مرکزی وزراء کی بے راہ روی کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی ویڈیو کے ذریعہ تو کبھی کسی متاثرہ لڑکی یا خاتون کی شکایت کے ذریعہ ۔ وقتی طور پر کچھ ہنگامہ ہوتا ہے اور اگر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دیں تو وزارتی عہدوں سے وقتی طور پر استعفی دلوایا جاتا ہے ۔ تمام مراعات کو برقرار رکھا جاتا ہے ۔ کچھ وقت گذرنے اور معاملہ ٹھنڈا پڑنے کے بعد دوبارہ وزارت میں شامل کرلیا جاتا ہے ۔ تقریبا ہر پارٹی اور وزارت میں ایسے افراد کی تعداد پائی جاتی ہے جن پر جنسی ہراسانیاور زیادتی کے الزامات پائے جاتے ہیں۔ عوام کے درمیان پہونچ کر خواتین کی حفاظت اور عزت و عصمت کے تحفظ کی باتیں کرنے والے ذاتی زندگی میں اپنے عہدوں اور وزارتوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے خواتین کی عزتوں کو داغدار کرتے ہیں اور دوسروں کیلئے نصیحت کرنے میں مہارت بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ حالیہ کچھ برسوں میں اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں سرکاری عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز افراد اس طرح کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ چاہے سابق مرکزی وزیر ہوں یا پھر موجودہ رکن اسمبلی ہوں ان پر عصمت ریزی کے الزامات پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ وزراء پر بھی اسی طرح کے الزامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اب تازہ ترین واقعہ میں کرناٹک کے وزیر آبی وسائل رمیش جرکی ہولی کا ایک ویڈیو منظر عام پر آگیا ہے ۔ انہیں وزارت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ملازمت کی خواہاں خاتون کے جنسی استحصال کے معاملے میں اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے ۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںایسے میں انتخابی ماحول کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے جرکی ہولی کو استعفی دینے کیلئے رضا مند کرلیا ہے ورنہ تو بی جے پی کی یہ روایت رہی ہے کہ اس کے قائدین پر عصمت ریزی اور قتل جیسے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کی مدافعت کی جاتی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی قائدین اپنی روش کو بدلنے تیار نہیں ہیں۔
کرناٹک میں جو ویڈیو منظر عام پر آیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ وزیر رمیش جرکی ہولی ایک خاتون کے ساتھ نازیبا حالت میں پائے گئے ۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقیدوں اور سوشیل میڈیا پر ہونے والے تبصروں کو دیکھتے ہوئے انہیں کابینہ سے استعفی کیلئے رضامند بھی کرلیا گیا اور انہوں نے استعفی بھی پیش کردیا ۔تاہم بی جے پی کے ہی ایک سینئر قائد نے کہا کہ ایسی صورتحال کا سامنا کرنا مشکل ہوگا اسی لئے رمیش جرکی ہولی کو استعفی کیلئے کئی گوشوں سے تلقین کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے ۔ بی جے پی لیڈر کا کہنا تھا کہ یہ معمول کی صورتحال ہے ۔ کچھ دن کیلئے استعفی لیا جائیگا ۔ جیسے ہی حالات معمول پر آجائیں گے اور لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں گے انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا جائیگا ۔ کرناٹک کا بینہ میں ایک ایسے وزیر بھی موجود ہیں جن پر پہلے سے جنسی ہراسانی جیسے سنگین الزامات تھے اور بعد میں وزارت دی گئی ہے ۔ اس طرح کی جو روایت رہی ہے اس سے خواتین کی عزتوں اور عصمتوں کو داغدار کرنے والوں کے عزائم پست نہیں ہو رہے ہیں۔ کتنے ہی بڑے اور اعلی عہدہ پر فائز کیوں نہ ہوں ایسے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بی جے پی میں ایسا لگتا ہے کہ اپنے قائدین اور وزراء کیلئے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور انہیں ہر طرح کی چھوٹ ہے ۔ ان پر کتنے ہی گھناونے اور سنگین الزامات عائد ہوجائیں انہیں سزائںے دلانے کی بجائے انہیں بچانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔
عوامی اور سیاسی زندگی میں سازشوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہر معاملہ کو اپوزیشن کی سازش اور ریشہ دوانی قرار دیتے ہوئے مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی میں اس معاملہ پر کم از کم ایک ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے ۔ نہ صرف بی جے پی بلکہ سارے ملک میں عوامی اور سرکاری عہدوں پر فائز افراد کیلئے تو زیادہ سخت قوانین کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ اپنے عہدہ کا بیجا استعمال نہ کرنے پائیں اور نہ ہی خواتین کی عزتوں و عصمتوں کو داغدار کرنے والوں کو کوئی بچانے پائے ۔ جب تک اعلی عہدوں پر فائز افراد پر لگام نہیں کسی جائے گی سارے ملک میں خواتین کی عزت و عفت کو بچانا ممکن نہیں ہوگا ۔ ہر جماعت کو اس میں اپنا رول ادا کرتے ہوئے عوام کے درمیان ایک مثال بن کر پیش ہونے کی ضرورت ہے ۔