سیاسی لوگ کسی کا بھلا نہیں کرتے

,

   

چناؤ کا موسم … نفرت کی جگہ ترقی کا نعرہ
گجرات فسادات کے 22 سال … انصاف ابھی باقی

رشید الدین
لوک سبھا الیکشن2024 کا بگل الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی بھی وقت بج سکتا ہے۔ تمام اہم سیاسی پارٹیاں عوام کے درمیان پہنچ کر اپنے ووٹ کی اڈوانس بکنگ میں مصروف ہیں۔ قومی اور ریاستوں کی سطح پر توڑجوڑ کی سیاست عروج پر ہے۔ قدیم دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نئے دوست تلاش کئے جارہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی بقاء کی فکر ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ نے غیر صحتمندانہ اور غیر جمہوری روایات کو ایجاد کیا ہے۔ بی جے پی کو قومی سطح پر تیسری مرتبہ اقتدار کی فکر ہے تو کانگریس پارٹی انڈیا الائنس کے استحکام میں مصروف ہے تاکہ نریندر مودی کو اقتدار سے روکا جاسکے۔ بیشتر قومی اور علاقائی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس زیر قیادت اتحاد میں تقسیم ہوچکی ہیں جبکہ بعض دیوار کی بلی بنے بیٹھے ہیں جس کا پلڑا بھاری ہوگا اس کے ساتھ ہوجائیں گے۔ ایسے موقع پرست قائدین میں بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار دوسروں کے سپریم کمانڈر کا درجہ رکھتے ہیں اور سیاسی مبصرین نے دل بدلو معاملہ میں ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ابن الوقت کا لفظ بھی شاید ان کیلئے چھوٹا ثابت ہوگا اور ڈکشنری سے ہٹ کر کسی نئے خطاب کا ایجاد کرنا ہوگا۔ ایسے قائدین اور ایسی پارٹیوں کیلئے کوئی اصول نہیں ہوتے بلکہ صرف اقتدار ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ عوام کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر یہ لوگ کسی بڑی پارٹی سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں بی جے پی نے انسانوں کے شکاریوں کو ہر ریاست میں چھوڑ دیا ہے جو مخالف خیموں سے شکار کرتے ہوئے سیاست کو خرید و فروخت کے بازار میں تبدیل کرچکے ہیں۔ بی جے پی کو اصل خطرہ چونکہ کانگریس سے ہے لہذا ہر چھوٹے لیڈر کو بھی بڑے لیڈر کی طرح استعمال کرتے ہوئے مائنڈ گیم کھیلا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آئندہ ہفتہ کسی بھی وقت الیکشن شیڈول جاری کردے گا جس کے بعد ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے حکومتوں کیلئے نئی اسکیمات کے اعلان اور افتتاح پر پابندی لگ جائے گی۔ نریندر مودی حکومت نے شیڈول کی اجرائی سے قبل روزانہ ہزاروں کروڑ کی اسکیمات کے سنگ بنیاد کی مہم شروع کی ہے۔ نریندر مودی نے ریاستوں کے طوفانی دورے کا آغاز کردیا ہے جو سرکاری دورہ سے زیادہ انتخابی مہم کی طرح ہے۔ روزانہ 20 تا 30 ہزار کروڑ کے کاموں کا سنگ بنیاد دراصل ہتھیلی میں جنت دکھانے کی کوشش ہے۔10 برسوں میں ان پراجکٹس کا خیال کیوں نہیں آیا؟۔ مودی نے ملک کی تاریخ میں کئی ریکارڈ بنائے ہیں ان میں بیرونی ممالک کے دوروں کے ساتھ اندرون ملک دورے شامل ہیں۔ ایک دن میں کئی ریاستوں میں مہم سے مودی اکثر یہ بھول رہے ہیں کہ وہ کس ریاست میں عوام سے مخاطب ہیں۔ نریندر مودی دونوں میعادوں میں الیکشن سے عین قبل ترقی کا ایجنڈہ یاد کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ پانچ برس تک فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ اکثریتی ووٹ بینک مستحکم کیا جاتا ہے اور الیکشن سے عین قبل ترقیاتی پراجکٹس کا اعلان ہوتا ہے۔ سنگھ پریوار کے پسندیدہ نریندر مودی اپنے ذاتی پریوار سے محروم ہیں۔ قوم کی فکر کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم کو خود اپنی شریک حیات کی فکر نہیں۔ ہر ہندوستانی کے دل میں جگہ بنانے کا تو دعویٰ ہے کاش یشودا بین کیلئے بھی دل میں کوئی جگہ ہوتی جنہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ جس شخص کا کوئی پریوار نہ ہو وہ مکمل انسان نہیں کہلاتا۔ طلاق ثلاثہ کو منسوخ کرتے ہوئے مودی آزاد خیال خواتین کے بڑے بھائی بن گئے لیکن وہ خواتین کا دکھ درد کیا جانیں گے کیونکہ خود اپنی شریک حیات سے انصاف نہیں کیا۔ ویسے بھی آجکل مسلم خواتین سے ہمدردی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ شرعی قوانین کو ختم کرتے ہوئے آزاد خیال نام نہاد مسلم خواتین کو بی جے پی کی تائید میں ٹی وی شوز میں پیش کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کو لوک سبھا چناؤ میں مسلم خواتین کی تائید کے حصول کا دعویٰ ہے۔ حقیقی ہمدردی تو اس وقت ہوگی جب مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی دور کی جائے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک ختم ہو۔ زبانی ہمدردی سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک طرف اقلیتی بہبود کے بجٹ میں کمی کردی گئی۔ اسکالر شپ اور تعلیمی امداد کی اسکیمات کو ختم کردیا گیا۔ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب مرکزی کابینہ مسلم نمائندگی سے محروم ہے۔ واجپائی اور اڈوانی دور میں مسلم چہرہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی صورت میں دکھائی دیتا تھا لیکن نریندر مودی نے ان چہروں کو گوشہ گمنامی کی نذر کردیا۔ ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ یہ سلوک کیا رواداری کہا جائے گا؟۔ سنگھ پریوار مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ پسماندہ اور غریب رہیں۔ تعلیم ہی ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلمان پسماندگی کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہر الیکشن میں غریب اور بھولے بھالے مسلمانوں کا استحصال سیاسی پارٹیوں کیلئے معمول بن چکا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی دنیا بھر میں گجرات ماڈل کے برانڈ ایمبسیڈر کا رول ادا کرتے رہے۔ ترقی کے بارے میں نریندر مودی بھلے ہی لاکھ دعوے کرلیں لیکن گجرات فسادات کا داغ اُن کے دامن سے شاید ہی زندگی میں دُھل پائے گا۔ نریندر مودی وزیر اعظم کے عہدہ پر لاکھوں روپئے کے لباس ایک دن میں کئی تبدیل کرتے ہیں لیکن ہر لباس پر گجرات کے مظلوم مسلمانوں کے خون کے دھبے ضرور ہوتے ہیں بھلے ہی عام آنکھوں سے دکھائی نہ دیں۔ گجرات کی تاریخ سے واقف اہلِ نظر کو یہ داغ ضرور نظر آتے ہیں۔ گجرات فسادات کو 22 سال مکمل ہوگئے اور ہندوستان نے ان فسادات کو اپنی گوناگوں مصروفیات اور مسائل میں شاید بُھلادیا ہے۔ نریندر مودی نے وزیر اعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد روزانہ عوام کو نئے نئے مسائل اور مشکلات سے دوچار کیا۔ ہرشخص اپنی تکالیف اور مسائل میں اس قدر اُلجھ چکا ہے کہ اسے دوسروں کے درد کا احساس باقی نہیں رہا۔ گجرات فسادات کو عالمی اداروں نے گجرات نسل کشی کا نام دیا تھا آج بھی ہزاروں متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔ 27 فروری 2002 کو گودھرا میں ٹرین سانحہ سے فسادات کی ابتداء ہوئی تھی۔ فسادات کے 22 سالہ طویل عرصہ میں اُسوقت جنم لینے والے بچے آج جوان ہوچکے ہیں جبکہ اُسوقت کے ضعیف دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایک تجزیہ کے مطابق گجرات کی نئی نسل چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو اُسے فسادات کی ہولناکی کا اندازہ نہیں ہے۔ نریندر مودی نے بقول مبصرین کے گجرات فسادات کے ذریعہ دہلی کا راستہ نکال لیا اور وزیر اعظم کے عہدہ کے ناقابلِ چیلنج دعویدار بن گئے۔ واجپائی نے مودی کو ’’ راج دھرم‘‘ نبھانے کا مشورہ دیا تھا لیکن نریندر مودی گجرات کے نہیں بلکہ سارے ملک میں اپنا تیار کردہ ’’ دھرم ‘‘ نبھارہے ہیں جو نفرت اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے۔ گجرات فسادات کے ہزاروں متاثرہ خاندان آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔ انصاف کے انتظار میں کئی متاثرین دنیا سے رخصت ہوگئے۔ گذشتہ دنوں رضاکارانہ تنظیموں نے سروے کیا جس میں افسوسناک پہلو سامنے آیا کہ فسادات میں جن خواتین کی عصمت سے کھلواڑ کیا گیا وہ آج بھی کسی غیر مرد کو دیکھتی ہیں تو خوف طاری ہوجاتا ہے۔ فسادات میں مسلمانوں پر ظلم اور جبرکے جو پہاڑ توڑے گئے اس کی مثال شاید ہٹلر اور مسولینی کے دور میں پیش کی جاسکتی ہے۔ بلقیس بانو خاندان پر ظلم کرنے والوں کو گجرات کی حکومت نے سزاء کی تکمیل سے قبل ہی رہا کردیا تھا۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے ملزمین کو دوبارہ جیل بھیجنے کی ہدایت دیتے ہوئے انصاف کے پرچم کو بلند رکھا ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ یا بازآبادکاری تو چھوڑیئے عدالت سے بھی انصاف نہیں ملا۔ فسادات کے وقت جن مسلمانوں کو مقدمات میں ماخوذ کیا گیا وہ آج بھی جیلوں میں بند ہیں۔ لوک سبھا چناؤ2024 میں رائے دہی میں حصہ لیتے وقت ملک بھر کے انصاف پسند عوام کو گجرات فسادات کے 22 سال کی تکمیل کو یاد رکھنا چاہیئے۔ نریندر مودی کو مظلومین کے زخموں پر مرہم کے بجائے نمک چھڑکنے کی عادت ہوچکی ہے۔ اگسٹ 2019 میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ کشمیر کے خصوصی موقف کی دفعہ 370 کو کالعدم کردیا گیا تھا۔ کشمیری عوام کیلئے انصاف کا یہ آخری ذریعہ تھا جسے ختم کرتے ہوئے نریندر مودی نے مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ختم کرنے کی مساعی کی۔ مودی نے کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ’’ کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت‘‘ کا نعرہ دیا تھا لیکن دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد سے نہ ہی کشمیریت باقی رہی اور نہ کشمیریوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیا گیا۔کشمیر میں جمہوریت کے بجائے لیفٹننٹ گورنر راج نافذ کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کی اہمیت ختم کردی گئی۔2019 کے بعد پہلی مرتبہ مودی نے سرینگر کا دورہ کیا لیکن اسمبلی الیکشن اوردفعہ 370 کی بحالی کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ راحت اندوری کو یہ شعر کہنا پڑا ؎
دعا بھی کرتے ہیں دل سے دعا نہیں کرتے
سیاسی لوگ کسی کا بھلا نہیں کرتے