داد ا حضرت جانتے تھے کہ محب وطن کی جڑیں گہری چلتی ہیں‘ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ مرد او رعورت مساوی ہیں۔
یہ صرف عمل ہے جو انہیں ایک دوسرے سے بہتر بناتا ہے۔ دادا حضرت کو معلوم تھا کہ انہیں اپنے سینگھوں کے ذریعہ بیل کو اٹھاناہوگا۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں اس بارے میں ہم سے بات کرنے کی ہے۔آخر کار ہمارے پاس درجنوں چچارے بھائی تھے۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایک شخص کی انا چاہے وہ کتنا بھی چھوٹا یا بڑا کیوں نہ ہو ں نازک ہی ہوتی ہے۔
مجھے ایسا ایک واقعہ یاد ہے ۔ میری اہلیہ نے کچھ سال قبل استعفیٰ دیدیاتھا۔ ایک دو دن میں داد ا حضرت کو اس کے متعلق جانکاری مل گئی۔انہوں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا اور آہستہ سے پوچھا’’ کیایہ اس لڑکے کی وجہہ سے جسے تم نے چھوڑ دیاہے؟اسے یہاں بلاؤ اور میں اس سے بات کروں گا۔
ایک تعلیمی یافتہ عورت کو گھر میں نہیں بیٹھنا چاہئے‘‘۔دادا حضرت ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کی جماعت بڑھے۔ شادی کے لگ بھگ سات سال بعد میری بیوی اور میری کوئی اولا د نہیں تھے‘ جس کی وجہہ سے انہیں کافی تشویش ہورہی تھی۔
سردیوں کی شام تھی میں نے انہیں کئی دنوں سے نہیں دیکھا تھا‘ اس لئے میں نے ان کے یہاں پر جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی میں نے ان کواسلام وعلیکم کہا‘ انہوں نے میرا ہاتھ ایک دم سے پکڑلیا۔
انہوں نے مجھے اپنے قریب کھینچا لیا۔ شروعاتی بات چیت نے مجھے چوکنا کردیا اور ساتھ ہی ساتھ مجھے گستاخی کرنے پر مجبور کردیا۔ جیسا کے آپ دیکھ سکتے ہیں عاجزی کی اہمیت ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ روحانی روشنی کی تلاش ہے۔
او ردادا حضرت ہمارے اسی کے لئے تھے۔ ایک چمک دار پروضع مثل راہ ہے۔میں روز محشر کا انتظار کروں گا۔ جب ہم دوبارہ ملیں گے۔
پروردگار کی ان کی مغفرت کرے۔ جناب سید محمد ان کے سل نمبر9963052912پر ربط کیاجاسکتا ہے۔
یہ بتایاجاتا ہے کہ اے جی افس حیدرآباد کے سابق ملازم جناب سید ہدایت اللہ پیرزدہ المعروف عبداللہ فتح پیرزادہ کا 95سال کی عمر میں نمس اسپتال میں انتقال ہوگیا۔اس بات کا بھی خیال رکھا جاسکتا ہے کہ وہ ترب بازار کے ساکن تھے ۔
شروعات میں وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے اور پھر انہوں نے تبلیغی جماعت میں سرگرم رول ادا کیا۔ حیدرآباد میں وہ تبلیغی جماعت کے بانیوں میں سے ایک تھے۔