’’سیول سرویسز پر توجہ ، وقت کا تقاضہ‘‘

   

محمد نصیرالدین
دولت، ثروت اور عیش و عشرت کی دوڑ ، نام نمود، دکھاوا، ریاکاری اور شہرت و تفاخر کی مسابقت نے سماج کو کچھ اس طرح لپیٹ میں لے لیا ہے کہ نہ صرف نئی نسل بلکہ ان کے والدین و سرپرست بھی حصول دولت اور عیش و عشرت کی زندگی کو کل مقصد حیات سمجھنے لگے ہیں ، چنانچہ مقصد تعلیم اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا یہی مرکزی نکتہ بن گیا ہے ۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کے پیش نظر بیرون ملک ملازمت کے ساتھ فیملی ویزا ، میڈیسن یا انجنیئرنگ کی ڈگری اور گرین کارڈ لڑ کی سے شادی اور کوئی آسان تجارت کے ذریعہ شاندار بنگلہ اور آرام دہ موٹر کار کا حصول ہی زندگی کا مقصد بن گیا ہے ۔ جب معاشرہ کا معیار بس اتنا ہی ہوجائے تو لازم ہے کہ اس کے اثرات طلباء ، ان کے سرپرست اور تعلیمی اداروں کے ما لکین پر بھی پڑتے ہیں۔ خاص کر تعلیمی سال کے آغاز پر طلباء اور ان کے سرپرست کیریئر پلاننگ کے ضمن میں کچھ زیادہ ہی سوچتے ہیں ، اسی طرح تعلیمی ادارے بھی بلند معیار کے دعوے کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں لیکن ان سب سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ ان تمام سرگرمیوں کا مرکزی نکتہ ’’میڈیسن اور انجنیئرنگ‘‘ کی تعلیم ہی ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی دو کورسس ہی بہتر اور کامیاب مستقبل کی ضمانت ہیں ؟ کیا بہتر اور کامیاب مستقبل کے لئے کوئی دوسری راہ نہیں ہے ؟ حالانکہ ان دونوں شعبہ جات میں بھی مسابقت کافی بڑھ چکی ہے ، ان شعبوں کی اعلیٰ ڈگریوں کی عدم موجودگی میں محض گریجویشن بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں بن سکتا ۔ برخلاف اس کے ریاستی و مرکزی حکومتوں کی وزارتوں اور محکموں کیلئے ہر سال مسابقتی امتحانات منعقد ہوتے ہیں جس میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ملک بھر مختلف اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر تعینات کیا جاتا ہے اور یہی وہ عہدیدار ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک اور ملک کا مستقبل ہوتا ہے ۔ ملک کے سرخ اور سفید کے یہ ما لک ہوتے ہیں ، ملک کی ترقی ، تعمیر اور بہتری کے یہی ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ملت اسلامیہ جو کہ کل آبادی کا 15 فیصد حصہ ہے ، آج ان کلیدی عہدوں اور مناصب سے محروم ہے ، فیصلہ ساز پالیسی ساز اداروں سے یہ دور ہیں جس کی وجہ سے پسماندہ ، بچھڑے ہوئے اور ستائے ہوئے ہیں۔ ہر سال یونین پبلک سرویس کمیشن نتائج کا اعلان کرتی ہے اور بدقسمتی سے مسلم کامیاب امیدواروں کی تعداد 2 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔ ملت کے رہنما ، قائدین اور اکابرین اپنی تقاریر میں مسلمانوں کی پسماندگی کو لیکر ایک سے بڑھ کر ایک نئے نئے انکشافات اور اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ ملک کی عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہورہی ناانصافی ، تعصب اور منفی سوچ پر سخت تنقیدیں بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی وجہ افسر شاہی کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں مختلف تنظیمیں ادارے اور جما عتیں سرگرم عمل بھی ہیں جنہیں ملت کی تعمیر اور مستقبل کی بے انتہا فکر بھی ہے اور یہ سب فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی شمولیت کیلئے مہم چلاتے ہیں۔ اپنی اپنی تنظیم اور جماعت کے جلسوں کیلئے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں اور کامیابی کیلئے انتہائی تگ ودو بھی کرتے ہیں لیکن ملت کے نو نہالوں کو مسابقتی امتحانات میں شرکت کیلئے تیار کرنے اور انہیں تربیت دینے کی طرف ان کی دلچسپی نہ کے برابر ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ذہین ، قابل اور باصلاحیت نوجوانوں کی کمی ہے لیکن دنیا کی چمک دمک اور عیش و عشرت نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے ۔ انہیں صرف دولت کمانے اور عیش و عشرت کے ذرائع حاصل کرنے سے ہی دلچسپی رہ گئی ہے ، ملت کی تعمیر اور ترقی کیلئے نہ وہ فکرمند ہیں اور نہ ہی احساس ہے۔ ظاہر ہے نوجوانوں کی سوچ و فکر کو محض ان کی ذات اور خاندان تک محدود کردیا جائے تو وہ قوم و ملت کیلئے کیسے سوچیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ مسلم سماج میں سیول سرویسز کے تئیں کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی اور نہ ہی اس سلسلہ میں شعور بیداری کی کسی گوشہ سے کوئی کوشش ہی سامنے آئی ہے !!
ملک کی عدلیہ ، انتظامیہ اور مقننہ میں مسلم نمائندگی خاطر خواہ نہ ہونے سے درج ذیل خطرات سے ملت دوچار ہے ۔
(1 قانون ساز اداروں میں اسلام مخالف قوانین اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا خطرہ لگا رہتا ہے۔
(2 عدالتوں میں مسلمانوں کے باہمی امور و عائیلی مسائل میں فاضل ججوں کا متعصبانہ رول ۔
(3 انتظامیہ میں فائز اعلیٰ عہدیداروں کی سرد مہری اور منفی سوچ کی بناء مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی۔
(4لاء اینڈ آرڈر پولیس و نیم فوجی فورسس میں فرقہ پرست عناصر کی وجہ سے مسلم نوجوانوں پر ظلم و زیادتی اور انکاؤنٹر کے واقعات۔
(5مسلمانوں کی طرف سے صنعت و حرفت میں کی جانے والی کوششوں میں مالیاتی اداروں اور دیگر محکموں کی رکاوٹیں
(6پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے مسلسل اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی الزامات اور بہتان تراشی کا رویہ
(7 انصاف رسانی اور فلاح بہبود کے نام پر مسلمانوں کیلئے قائم کردہ محکمہ جات اور اداروں کا غیر معاون رویہ
(8 مسلمانوں کے قائم کردہ مختلف تعلیمی ، فلاحی اور خدمت خلق کے اداروں کے ساتھ اعلیٰ افسران کا معاندانہ رویہ ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ملت اسلامیہ دوچار ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتیوں کا سلسلہ کچھ اس طرح چل پڑا ہے کہ کوئی بھی پارٹی یا جماعت کی حکومت ہو، اس میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ، طرفہ تماشہ یہ کہ وہ نمائندے جو ملت کی خدمت کے نام پر منتخب ہوتے ہیں ، وہ اپنے ذاتی ایجنڈہ کو اپنا مطمع نظر بناتے ہیں اور ملت کے تئیں ہورہی ناانصافیوں کے خلاف بھر پور نمائندگی بھی نہیں کرتے۔
یونین پبلک سرویس کمیشن نے 2019 ء کے لئے سیول سرویسز کے امتحانات کا شیڈول جاری کردیا ہے اور یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ادارہ سیاست نے اس سلسلہ میں امیدواروں کی رہنمائی کا اعلان کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ محض کسی مخصوص ادارہ کا کام نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے دعوے کرنے والی تمام تنظیموں ، انجمنوں اور جماعتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ملک اور ریاست کے ہر ضلع میں شعور بیداری مہم چلاکر چنندہ طلباء کی بھرپور رہنمائی ، مدد ، وسائل کی فراہمی کے ذریعہ سیول سروسز امتحانات میں شرکت پر آما دہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ وہ عظیم کام ہے جس پر تھوڑی سی توجہ اور دلچسپی قوم و ملت کیلئے برسوں خدمت کے مماثل ہے ۔ ملت اسلامیہ کو آج جن چیلنجس کا سامنا ہے اور جو نت نئے مسائل پیش آتے جارہے ہیں، ان سب کا حل یہی ہے کہ ملت کے نوجوان ملک کے سرخ و سفید میں حصہ داری کیلئے آگے بڑھیں اور ملت کی پسماندگی اور ظلم و ستم کے واقعات ، ناانصافی اور تعصب پر دیگر کو مورد الزام ٹھہرانے کے سلسلہ کو ختم کریں۔ جماعت اسلامی اور اس کی طلباء تنظیم ایس آئی او کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم تنظیموں اس سلسلہ میں کلیدی رول ادا کر نا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں درج ذیل کوششیں بار آور ہوسکتی ہیں۔
(1 ہائی اسکول سطح پر ذہین و باصلاحیت طلباء کا انتخاب کریں، محض شہری طلباء کے بجائے ہر ضلع سے طلباء کو منتخب کریں۔
(2 انٹرمیڈیٹ میں موزوں مضامین کے ساتھ خصوصی تعلیم اور ذہنی تربیت و ارتقاء کا انتظام کریں۔
(3 منتخب طلباء کو جنرل نالج ، انگریزی زبان اور بحث مباحثہ پر عبور دلایا جائے۔
(4 غریب اور مستحق طلباء کیلئے بلا معاوضہ تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔
(5 اس کام کیلئے اعلیٰ عہدوں سے فارغ اصحاب کو منتخب کیا جائے اورانہیں اس کام کی ذمہ داری سپرد کی جائے۔
ظاہر ہے جب اخلاص اور جذبۂ خدمت کے تحت کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی لازماً مدد و نصرت شامل حال رہے گی ۔ ضروری نہیں کہ پہلے ہی سال کامیابی حاصل ہوجائے لیکن اخلاص نیت سے مسلسل تگ ودو اور محنت کی جائے تو بعید نہیں کہ سیول سرویسز میں مسلم امیدواروں کا تناسب 2 فیصد سے بڑھ کر آبادی کے تناسب سے ہوجائے گا اور مسلمانوں کی تعمیر و ترقی کے تابناک دور کا آغاز ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ توفیق خیر بخشے ۔ آمین ۔
وقت سب کو ملتا ہے زندگی بدلنے کیلئے
زندگی دوبارہ نہیں ملتی وقت بدلنے کیلئے