حیدرآباد۔پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے سے اپنے ساتھی کو بچانے اور پولیس والوں کو انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے روکنے والی نوجوان لڑکیوں کے ویڈیو اور فوٹوز وائیرل ہوئی ہیں۔
مذکورہ تین لڑکیاں لدیدا فرزانہ‘ عائشہ رانا اور چندانا یادو ہیں۔ یہ تینوں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ ہیں‘ یونیورسٹیوں میں یہ وہ پہلا ادارہ ہے جہاں سے مخالف سی اے اے احتجاج کی قومی راجدھانی میں شروع ہوئی تھی
How to rescue a victim during a #lynching incident.
Real life demo by women students of #Jamia— Natasha Badhwar (@natashabadhwar) December 15, 2019
"They tell women to stay at home and not speak up, but speak up we must. Nobody can take our voice"- 22 year old Ayesha Renna & Ladeeda Farzana -Sheroes from 2 viral images from #Jamia, one in which they save their male friend from lathis, speak to me about Women Leading protests pic.twitter.com/xc2jvO4iUZ
— barkha dutt (@BDUTT) December 16, 2019
ہندوستان میں مرکزی دھارے کے مظاہروں کی تاریخ میں خواتین نے بڑا رول ادا نہیں کیا ہے‘معاشرتی اصولوں کے پیش نظر اس سے زیادہ مسلم خواتین عوامی دائروں میں حصہ داری کے لئے کافی محدود بھی رہی ہیں۔
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خواتین سڑکوں پر اتری ہیں۔ اس مرتبہ خواتین احتجاجیوں میں سے ایک نے کہاکہ حکومت نے انہیں سڑکوں پر اترنے کے لئے مجبور کیاہے۔
شہر ت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج میں ایک نشان کے طور پر مسلم او رغیر مسلم عورتیں مظاہروں کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
حکومت کے خلاف عوام کی برہمی کی مثال کے طور پر کئی خواتین اس قانون کی مخالفت میں احتجاج کررہی ہیں جس نے منتخب ممالک کی مذہبی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت کی راہ ہموار کی ہے۔
ایک اٹھارہ سالہ لڑکی جس کا نام اندولیکھا پرتھاہے نے وزیراعظم نریندرمودی کو منھ توڑ جواب ’برقعہ‘ پہن کر دیا ہے اور اس کے ہاتھ میں پلے کارڈ بھی ہے جس پر تحریر ہے کہ ”مسٹر مودی‘ میں اندولیکھا ہوں۔
میری ڈریس سے میری شناخت کریں؟“۔وہ نرینر مودی نے کے اس تبصرے کا حوالہ دے رہی تھیں جس میں انہوں نے کہاتھا کہ تشدد میں شامل لوگوں کی شناخت ان کے لباس سے کی جاسکتی ہے۔
I love my Hindu brothers and sisters across the border. I've nothing to do with their faith, I love them for the human which reside in them. I'm super proud of Hindu youth standing up for the right! #CAA_NRC
THIS QUEEN THO! pic.twitter.com/fLWC6DfQua— Khadija Abbas (@TheKhadijaAbbas) December 20, 2019
نئے شہریت قانون جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا ہے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج میں روز بہ روز اضافہ ہوتاجارہا ہے‘ جس میں کئی خواتین ملک بھر سے‘ آسام سے لے کر نئی دہلی تک اور اترپردیش سے لے کر کیرالا تک اس قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔
خواتین مذکورہ احتجاجوں میں پیش پیش ہیں کیونکہ ایسی دنیامیں اپنے بچوں کے مستقبل سے پریشان ہیں جہاں پر این آر سی اور سی اے اے جیسا قانون نافذ کیاجانے والا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے قانون کو نافذ نہیں ہونے دینا چاہے کیونکہ یہ انہیں ملک کی شہریت ثابت کرنے کے دستاویزات مشقت کرنا پڑے گا۔
رائٹرس کے مطابق کئی قدامت پسند مسلم گھرانوں کی خواتین او رلڑکیاں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل کر اس احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں
کیونکہ ان کااحساس ہے کہ عوام دشمن قانون سے ائین اور اپنی کمیونٹی کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے۔
ان کا کہناہے کہ وہ حکومت اور نہ ہی وزیراعظم سے خوفزدہ ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لئے سینوں میں گولی کھانے کے لئے تک تیار ہیں