سی اے اے پر حصول تائید کی کوشش

   

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
سی اے اے پر حصول تائید کی کوشش
شہریت ترمیمی قانون پر سارے ملک میںاحتجاج میں ہر روز شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس احتجاج نے مرکزی حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے ۔ اگر احتجاج کو پرامن رکھتے ہوئے اس میں مزید شدت پیدا کی جاتی ہے تو حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے اس متنازعہ قانون کے حق میں عوام کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے مس کال سرویس شروع کی گئی ہے ۔ عوام سے کہا جا رہا ہے کہ ایک مخصوص نمبر پر مس کال دیتے ہوئے اس متنازعہ قانون کے حق میں رائے دی جائے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ سوشیل میڈیا پر رائے عامہ کو ہموار کرنے اور اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں بی جے پی کو مہارت حاصل ہے ۔ اس کی جانب سے ایک پورا سوشیل میڈیا کا سیل چلایا جاتا ہے ۔ اس پر تنخواہیں ادا کرتے ہوئے لوگوںکو مامور کیا جاتا ہے تاکہ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے ۔ اب شہریت ترمیمی قانون پر رائے عامہ حاصل کرنے کے مقصد سے جو سرویس شروع کی گئی ہے اس کے تعلق سے بھی یہ کہنا دشوار ہی ہوگا کہ اس کے نتائج حقیقت پر مبنی ہونگے ۔ اس میں بھی بی جے پی توڑ مروڑ کا ہی سہارا لے گی ۔ تاہم دوسرا اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ ملک بھر کے عوام اس قانون کے حق میں ہیں۔ جب اس کا یہ دعوی کھوکھلا اور جھوٹا ثابت ہونے لگا تو اس نے مس کال سرویس شروع کی ۔ اس قانون کے حق میں سد گرو کی مدد خود وزیر اعظم نے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی اس قانون کو پڑھے بغیر اس کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم سد گرو کی حمایت چاہتے ہیں جبکہ خود سد گرو نے ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ انہوں نے بھی یہ قانون نہیں پڑھا ہے ۔ اس سے بی جے پی اور اس کے قائدین کے دوہرے معیارات واضح ہوجاتے ہیں۔ بی جے پی خود اس مسئلہ پر مخمصہ میں پھنسی ہوئی نظر آنے لگی ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ ہر مسئلہ پر عوام کو گمراہ کرنے والی حکومت کو پہلی مرتبہ عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
ملک کے عوام کی جانب سے شروع کئے گئے احتجاج نے بی جے پی کو عوام کے موڈ کا احساس دلا دیا ہے لیکن حکومت اس کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نظر نہیںآتی اور وہ ایک بار پھر توڑ موڑ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے عوام کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اگر بی جے پی کا پہلا دعوی درست تھا کہ ملک کے عوام اس قانون کے حامی ہیں تو پھر احتجاج کی صورت ہی پیدا نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ اس احتجاج کی سب سے اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ ملک کے ہندو ‘ مسلم ‘ سکھ اور عیسائی سبھی مل کر احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج اور مخالفت کسی ایک طبقہ یا مذہب تک محدود نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر واقعی لوگ اس قانون کے حق میں ہیں تو پھر مس کال کے ذریعہ تائید جٹانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے ؟۔ اس کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے سارے ملک میںریلیاں نکالنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے اوران ریلیوں کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ یہ ریلیاں خود اس بات کا ثبو ت ہیں کہ عوام میں اس قانون کے تعلق سے ناراضگی ہے ۔ بی جے پی تین کروڑ خاندانوں سے رابطہ کرتے ہوئے شعور بیدارکرنے کی بات بھی کر رہی ہے ۔ یہ خود بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام میںاس قانون کے تعلق سے اندیشے ہیں اور ناراضگی ہے اسی لئے بی جے پی ان کی تائید حاصل کرنے ان تک رسائی حاصل کرنے اور گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
مرکزی حکومت کو اتنی محنت اور کوششوں کی ضرورت محض اسی لئے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ ملک کے عوام اس قانون کے حق میں نہیں ہے ۔ عوام اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان اور طلبا اس کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ کسی سیاسی سرپرستی اور تائید کے بغیر طلبا نے خود یہ محاذ سنبھالا ہے اور ہر رنگ و نسل ‘ ہر ذات پات اور ہر عمر و جنس کے لوگ اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت اگر واقعی ہندوستانی عوام کے احساسات اور جذبات سے واقفیت رکھتی ہے اور ان کا پاس رکھنا چاہتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی والا رویہ اور تکبرانہ انداز ترک کردے ۔ عوام کی آواز کو سننے کی کوشش کی جائے ۔ ان کے جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے اس قانون سے دستبرداری اختیار کرلے ۔ اس میںحکومت اپنی سبکی محسوس نہ کرے بلکہ فراخدلی کا مظاہرہ کرے۔