سمجھا جاتا ہے کہ لولو مال میں نماز ادا کرنے والے لوگوں کا ایک گروپ مسلمان نہیں تھا۔سی سی ٹی وی شواہدنے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ واقعہ کی شروعات سے ہی یہ ایک جان بوجھ کر کیاجانے والا مذاق تھا تاکہ مال کے وقار کومجروح کیاجاسکے اور فرقہ وارانہ نفرت کو بھڑکایاجاسکے۔
ایک تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب اٹھ لوگوں کے ایک گروپ کا لولو مال میں نماز ادا کرتے ہوئے ویڈیو وائیرل ہوا تھا۔
دائیں بازوگروپس نے ان افراد کے مال کے اندر نماز کی ادائیگی پر اعتراض جتایا اور متعلقہ ارباب مجاز سے ہنومان چالیسا پڑھنے کی اجازت طلب کی‘ جس کو مسترد کردیاگیاتھا۔
یہ معاملہ مال کے نمائندوں کی جانب سے کی گئی شکایت کے جواب میں کیاگیاتھا جس میں کہاگیاتھا کہ ویڈیو میں دیکھائی دینے والے افراد مال کے ملازمین نہیں ہیں۔ جمعہ کے روز مال کے ذمہ داران نے اردگرد میں پوسٹرس لگادئے جس میں اعلان کیاگیاکہ”مال کے اندر کسی بھی قسم کے مذہبی اجتماعات کو برداشت نہیں کیاجائے گا“۔
اٹھ لوگوں پر مشتمل ایک سی سی ٹی وی فوٹیج مال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھائی دیا۔ وہ نہ تو مال میں گھومے پھیرے اور شورموں میں سے کسی ایک میں گئے۔
انہوں نے کوئی چیز نہیں خریدی اور مال میں سلفی لینے میں بھی دلچسپی نہیں دیکھائی ہے۔وہ عجلت میں مال میں داخل ہوئے اور نماز ادا کرنے کے لئے جگہ کی تلاش کی۔ انہوں نے سیلر سے شروعات کی اور پھر وہ پہلی منزل پر گئے جہاں پر انہیں سکیورٹی افسران نے روک لیا۔
وہ پھر دوسری منزل پر گئے جہاں پرہجوم کم تھا۔ ان میں سے چھ وہیں پر بیٹھ گئے جبکہ دیگر دو نے ویڈیوز کی ریکارڈنگ اور تصویریں لینا شروع کردئے۔
مال کے بعض علاقائی ڈائرکٹرز کے جواب میں ایک پریس ریلیز میں دعوی کیاگیا ہے کہ کسی بھی بنیادپر کوئی امتیاز سلوک نہیں کیاجاتا ہے۔اور یہ بھی کہاکہ مال میں کام کرنے والا80فیصد سے زائد عملہ ہندو جبکہ باقی دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔