شادی کے بعد لڑکی سے کٹھور نندوں اور شوہرکی بدسلوکی

   

محمد اسد علی ، ایڈوکیٹ
موجودہ دور سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں تقریباً عصری آلات کا دخل اور ان کا استعمال ایک عام بات بن گئی ہے۔ اس پس منظر میں
On Line
رشتے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں۔ بعض اوقات
On Line
رشتے کے ذریعہ ایک دوسرے سے رشتہ کرنے کے سلسلے میں ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور کچھ مہینوں بعد لڑکا لڑکی سے اکتا جاتا ہے اور پھر اس سے تعلق ترک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کے چاہنے کے باوجود لڑکا اس کی عدم تجربہ کاری کی وجہ سے لڑکی کا استحصال کرنے کے بعد اسے فراموش کردیتا ہے جس کے نتیجے میں بھولی بھالی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہے اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے ان کے خواب چکناچور ہو جاتے ہیں ان حالات میں لڑکیاں مجبور ہوکر انصاف کے لئے عدالت سے رجوع ہوتی ہے جبکہ جبکہ فریق مخالف کو فوری طور پر اپنی اصلاح کرتے ہوئے لڑکیوں کے استحصال سے گریز کرنا چاہئے ورنہ موجودہ قانون کے تحت سخت سزا ہوسکتی ہے۔

لڑکیوں کو بھی چاہئے کہ ایسے
On Line
رشتے کے ذریعہ لڑکوں سے میل جول اور قربت اختیار نہ کریں اور منگنی یا شادی سے قبل لڑکے کے کردار اور اس بات کا پتہ چلانا چاہئے کہ وہ حقیقی طور پر شادی کرنا چاہتا ہے یا لڑکی کو دھوکا دے رہا ہے۔ ماں باپ کی مرضی کو فوقیت دی جانی چاہئے تاکہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار انداز میں گذرسکے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ
N.R.I
لڑکے اکثر یا عام طور پر شادی شدہ ہوتے ہوئے خود کو مجرد ظاہر کرتے ہوئے بھولی بھالی لڑکیوں کو دھوکہ دہی کا شکار بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر شادی کرنے کے باوجود بھی بیرونی ملک جاکر اپنی پسند کی دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکیوں کو اکثر حالات میں ’’بعض نندیں اور ساس ازیت کا شکار بناتی ہیں اور ان کے ہر فصل و عمل پر دانستہ طور پر نظر رکھتے ہیں تاکہ لڑکی کو ایک قیدی کی طرح گھر میں مقید رکھا جائے‘‘ ۔

لڑکی کو کہیں جانے حتی کہ اپنے ماہ باپ کے پاس تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور اگر شوہر باہر ہوتو بعض نندیں اپنی بھاوج پر غیر ضروری سختی کے ساتھ ظلم کرتی ہیں جبکہ بے بس لڑکیوں کو اگر اولاد ہوتو وہ نندوں کے ظلم اور شوہر کی دوسری شادی کے باوجود بھی سسرال میں زندگی گذارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں لڑکی کسی قسم کی فریاد بھی نہیں کرسکتی ہے کیونکہ اگر وہ اس بات کی شکایت کرے تو بچوں کا یا خود اس کا مستقبل اور اس کی گذر بسر ایک مسئلہ بن جاتی ہے لہذا وہ خاموشی کے ساتھ استحصال برداشت کرتی ہے اس سلسلے میں اگر نندیں یا سسروال کا کوئی اور فرد لڑکی کے ساتھ زیادتی کررہا ہو تو نندیں اور ساس تماشہ دیکھتی ہیں۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کنٹرول کرنے والی بعض نندیں آزادی کے ساتھ جہاں چاہے جاتی ہیں لیکن اپنی بھاوج کو کہیں بھی جانے نہیں دیتی ہے اور اگر لڑکی شکایت کرتی ہے تو اس کے شوہر سے جھوٹی شکایتیں کی جاتی ہیں اور لڑکی کی برائیاں کی جاتی ہے جس سے ظالم شوہر کا ظلم اور بھی زیادہ سخت اور قابل اعتراض ہو جاتا ہے۔
ان سب حالات میں لڑکی کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر قانون سے استفادہ کرتے ہوئے مدد حاصل کرلے بعض اوقات نرمی کے بجائاے سختی سے کام لیا جاسکتا ہے جس کے ذریعہ اصلاح کے علاوہ دیگر برائیوں کا بھی سدباب ہوسکتا ہے۔ بقول علامہ اقبال
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد نادان پہ کلام نرم و نازک بے اثر
9959672740