شجر اندر ہی اندر زعفرانی ہوگیا ہے

   

آزادی کے 75 سال … جارحانہ فرقہ پرستی کا غلبہ
پارلیمنٹ ہنگاموں کی نذر … وینکیا نائیڈو رو پڑے

رشیدالدین
’’ میں ہندوستان ہوں۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے میں نے 75 سال مکمل کرلئے۔ یوں تو مجھے خود اپنی عمر اچھی طرح یاد نہیں لیکن انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد اور قربانیاں مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ ملک کی آزادی کا جشن ہر سال میں بھی مناتا ہوں لیکن گزشتہ چند برسوں سے جشن آزادی میں خوشیوں سے زیادہ ملک کے موجودہ حالات پر دکھ ہوتا ہے۔ فسادات اور نفرت کے نام پر بے قصوروں کی ہلاکتیں اور ہجومی تشدد میں نشانہ بننے والے اخلاق ، جنید اور دوسروں کی مدد کیلئے پکار آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ آزادی کے متوالوں نے غلامی سے نجات کے بعد خوشحالی ، محبت ، امن بھائی چارگی کا خواب دیکھا تھا ۔ مجاہدین آزادی کا خون آج بھی میرے پاس امانت کی طرح محفوظ ہے اور ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کو میں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ پلاٹنیم جوبلی سال ہر ہندوستانی کیلئے ترقی اور خوشحالی کی نوید ثابت ہوگا لیکن گزشتہ 7 برسوں سے ملک کا ماحول مجھے خون کے آنسو رلا رہا ہے ۔ مجاہدین آزادی نے جو خواب دیکھے تھے، وہ بکھر گئے اور نفرت ، تعصب ، فرقہ پرستی ، ناانصافی اور ظلم و تشدد نے دنیا بھر میں میری رسوائی کا سامان کیا ہے۔ مجھے خوشی تھی کہ لوگ جنت نشان اور سونے کی چڑیا جیسے القاب سے پکارتے رہے لیکن آج میں خود حالات سے شرمندہ ہوں ۔ میں نے بادشاہت اور جمہوریت دونوں میں رعایا پرور حاکم اور انصاف پسند حکمرانوں کو دیکھا ہے جن کے نزدیک ہندو اور مسلمان دو آنکھوں کی طرح تھے ، پتہ نہیں کیوں آج کے حکمراں صرف ایک آنکھ سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ آج کے حکمرانوں نے جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کیا ہے ۔ میں زخمی جسم اور بوجھل دل کے ساتھ آزادی کا جشن کس طرح مناؤں‘‘۔ یہ دراصل ہندوستان کی فریاد ہے اور صرف اہل دل ہی اس کرب کو محسوس اور اس کی آواز کو سن سکتے ہیں۔ اگر مجاہدین آزادی دنیا میں واپس آجائیں تو موجودہ حالات دیکھ کر پکار اٹھیں گے کہ آج کی آزادی سے انگریزوں کی غلامی بہتر تھی ۔ دنیا کے دیگر ممالک کو ہر سال ترقی کی منزلیں طئے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن ہندوستان جارحانہ فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس سماج میں نفرت کا زہر گھول دیا جائے ، وہ ترقی سے دور ہوجاتا ہے ۔ آزادی کا جشن حقیقی معنوں میں اس وقت مکمل ہوگا جب عوام خوشیوں میں شریک ہوں ۔ قدم قدم پر مسائل کا سامنا ہو تو پھر جشن اور خوشی کا احساس بھی تکلیف دہ لگتا ہے۔ آزادی کے برسوں میں ہندوستان نے ہر شعبہ میں ترقی کی اور جو بھی حکمراں رہے ، انہوں نے ترقی میں اضافہ ہی کیا۔ اس کے علاوہ عوام کی بھلائی کے لئے کئی اسکیمات اور منصوبوں پر عمل کیا گیا ۔ ملک کی تاریخ کا وہ سنہرا دور تھا لیکن 2014 ء سے ہندوستان کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی۔ جس ملک میں پیار ، محبت ، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری دنیا بھر میں اپنی علحدہ شناخت رکھتی تھی ، آج نفرت ، تعصب ، عدم رواداری اور فرقہ پرستی نے سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے عوام میں پھوٹ پیدا کردی ہے ۔ آزادی کا جشن عوام کس طرح منائیں گے جبکہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔ خوشحالی اور سکون انسان میں خوشی کا باعث بنتی ہے لیکن یہاں تو ڈر اور خوف کا کچھ ایسا ماحول ہے کہ وطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کا احساس اعصاب پر طاری ہے۔ یوم آزادی کو لال قلعہ سے پرچم کشائی سے بعد وزیراعظم کی جانب سے نت نئے وعدے ، لچھے دار تقریر اور جملہ بازی گزشتہ 7 برسوں سے معمول بن چکا ہے ۔ ہر سال وعدوں کی فہرست طویل ہورہی ہے لیکن خوشحالی اور ترقی عوام کے گھروں میں داخل نہ ہوسکی۔ آزادی کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو نہرو سے مودی تک کا سفر کئی نشیب و فراز کی یاد دلاتا ہے لیکن گزشتہ 7 برسوں کو ملک کی تاریخ کا بدترین دور کہا جائے گا ۔ مودی کے نعرے اور دعوے کچھ ہیں لیکن عمل ان کے برخلاف ہے۔ نعرہ تو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا لگایا گیا لیکن چن چن کر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ، حق تلفی ، ناانصافی ، قتل و غارت گیری کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے کیلئے شریعت میں مداخلت کی گئی۔ محکومی اور دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے بابری مسجد کی جگہ جبراً رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ۔ شواہد اور ثبوت مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے ذریعہ مسجد کی اراضی حاصل کرلی گئی ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات تک مندر کی تعمیر مکمل کرتے ہوئے۔ عام انتخابات میں رام مندر کے نام پر ہندو برادری کے ووٹ لوٹ لیں گے ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی اور اب وراثت کے قانون میں مداخلت اور یکساں سیول کوڈ ایجنڈہ میں سرفہرست ہیں۔ واحد مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ختم کرنے کیلئے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور کشمیریوں کو حاصل خصوصی مراعات کی دفعہ 370 برخواست کردی گئی۔ یہ تمام اقدامات ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل کے سواء کچھ نہیں ۔ جمہوریت میں مملکت اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن یہاں حکمرانوںکی ذہن و فکر پر ہندوتوا اور مسلم دشمنی کا ایجنڈہ حاوی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تقریب میں حصہ لیا۔ لفظ مسلم سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ مودی نے اپنی ساری تقریر میں یونیورسٹی کا نام تو لیا لیکن ایک بار بھی لفظ مسلم کو شامل نہیں کیا جوکہ یونیورسٹی کا پورا نام ہے۔ وہ بار بار صرف علیگڑھ یونیورسٹی کہتے رہے۔ انہیں شائد یہ خیال نہیں آیا کہ وہ لفظ ’’علی‘‘ ادا کر رہے ہیں۔ اگر ان کا بس چلتا تو علیگڑھ کہنے کے بجائے صرف یونیورسٹی کہتے ہوئے اپنی تقریر ختم کرتے۔ گزشتہ دنوں ٹوکیو اولمپکس میں ہاکی کی مینس ٹیم نے برانز میڈل جیتا اور تاریخ 5 اگست تھی۔ مودی نے کھلاڑیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے 5 اگست کو رام مندر کی تعمیر کے آغاز اور کشمیر میں 370 کی برخواستگی جیسے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ذہنیت کو آشکار کیا ۔ کھیلوں سے رام مندر اور دفعہ 370 کا کیا تعلق ہوسکتا ہے لیکن نریندر مودی ہر شعبہ میں ہندوتوا ذہنیت کو عام کرنا چاہتے ہیں۔
نریندر مودی سے قبل اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیراعظم رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی ہندوتوا کو اپنے آپ پر مسلط ہونے نہیں دیا ۔ واجپائی نے گجرات کے بدترین فسادات پر اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کو ’’راج دھرم‘‘ نبھانے کی تاکید کی تھی ۔ بدترین فسادات کا پس منظر رکھنے والے آج دہلی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ملک میں جارحانہ ہندو فرقہ پرستی کا کچھ اس طرح غلبہ ہے کہ شریف اور سیکولر ہندو شرمندگی کے باعث چھپتے پھر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو مسلمانوں سے نفرت ضرور ہے لیکن یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کیلئے مسلمانوں کی نشانی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کی عظمت کی نشانیوں سے ہندوستان بھرا پڑا ہے ۔ تاج محل ہو کہ لال قلعہ یہ تاقیامت مسلمانوں کی جانب سے ملک کی خوبصورتی اور مقبولیت میں اضافہ کا باعث رہیں گے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ ملک کے پرچم کو مسلمان اپنے سر پر سجاتے ہیں جو کہ لال قلعہ کی فصیل کی صورت میں ہے۔ اگر مسلمانوں کی نشانیوں سے نفرت ہو تو پھر مودی حکومت کوئی ایسی جگہ کا انتخاب کرے جہاں سے قومی پرچم کو لہرایا جائے لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کرپائیں گے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کا اجلاس ہنگاموں کی نذر ہوگیا ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو مقررہ مدت سے قبل ہی ملتوی کرنا پڑا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دونوں ایوانوں میں ہنگامہ آرائی سے جو وقت ضائع ہوا ہے ، اس سے 264 کروڑ کا نقصان ہوا۔ 2010 ء میں 2G اسپکٹرم معاملہ پر بی جے پی نے پارلیمنٹ چلنے نہیں دیا تھا اور 11 سال بعد وہی سین دہرایا گیا۔ حکومت سیاسی قائدین اور اہم شخصیتوں کی جاسوسی معاملہ پر مباحث کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر حکومت جاسوسی معاملہ میں کلین چٹ ہے تو پھر اسے مباحث سے انکار کیوں ؟ حکومت کی ہٹ دھرمی کے رویہ کے نتیجہ میں دونوں ایوانوں کی کارروائی متاثر رہی لیکن نریندر مودی کو اطمینان اس بات کا ہے کہ حکومت کے تمام بلز بلا رکاوٹ منظور ہوچکے ہیں۔ سرکاری کام کاج مکمل ہوجائے تو پھر اپوزیشن کے مطالبہ کی کیا اہمیت ۔ راجیہ سبھا میں ہنگامہ آرائی نے حد سے تجاوز کردیا جس پر صدرنشین راجیہ سبھا وینکیا نائیڈو رو پڑے ۔ وینکیا نائیڈو نے ایوان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ رات بھر بے چین رہتے ہیں۔ ایوان میں وینکیا نائیڈو کا رونا بھی حکومت پر اثرانداز نہیں ہوا۔ وینکیا نائیڈو دراصل حکومت کی عقل پر ماتم کر رہے تھے کہ اس نے اپوزیشن کے مطالبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے عوامی مسائل پر مباحث کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی۔ راجیہ سبھا کی تاریخ میں ڈاکٹر شنکر دیال شرما بھی صدرنشین کی حیثیت سے ارکان کے رویہ پر رو پڑے تھے۔ جشن آزادی پر منظر بھوپالی نے کیا خوب تبصرہ کیا ؎
بہت مشکل ہے شاخوں پر ہرے پتوں کا رہنا
شجر اندر ہی اندر زعفرانی ہوگیا ہے