سوال: ۱۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید چند ملگیات کا مالک ہے اور وہ کرایہ پر دئیے گئے ہیں۔ کرایہ دار ملگی کرایہ پر لیتے وقت کرایہ کی تکمیل کے ساتھ کچھ ڈپازٹ بھی مالک کو دیتا ہے۔ یہ ڈپازٹ رقم تخلیہ ملگی کے وقت کرایہ دارکو واپس کردی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈپازٹ کی رقم حج کو جانے کیلئے مالک ملگیات شرعاً اپنے تصرف میں لاسکتا ہے یا کیا ؟۲۔ زید چند ملگیات کا مالک ہونے کے باوجود سفرِ حج کے لئے قرض ِ حسنہ لے سکتا ہے یا کیا ؟ بینوا تؤجروا
جواب : سفرِحج کرنے سے قبل قرض اور امانت وغیرہ ادا کردینا چاہئے۔ شرعاً حج ایسے شخص پر واجب ہے جس کے پاس مکان، لباس، سواری اور قرض کی ادائی کے بعد مکہ شریف جانے آنے کے خرچ کے علاوہ واپسی تک اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ چھوڑنیکی استطاعت ہو۔ عالمگیری جلد اول صفحہ ۲۱۷ میں شرائط وجوب حج کے تحت ہے وتفسیر ملک الزاد والراحلۃ أن یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ … وسوی مایقضی دیونہ ویمسک لنفقۃ عیالہ ومرمۃ مسکنہ ونحوہ الی وقت انصرافہ کذا فی محیط السرخسی۔
پس صورت مسئول عنہا میں زید کی ملگیات اس کے حوائج اصلی سے زائد ہیں تو ان میں سے حسبِ ضرورت فروخت کرکے سفرِحج کرنا رقم ڈپازٹ یا قرضِ حسنہ لے کر جانے سے بہتر ہے۔ اور اگر وہ ملگیات حوائج اصلی سے زائد نہیں ہیں تو زید پر حج ہی فرض نہیں ہے۔ فقط وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب