ایسا لگتا ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات بہت دلچسپ ہونگے کیونکہ اس کیلئے این سی پی سربراہ اور مہاراشٹرا کے طاقتور لیڈر شرد پوار نے ابھی سے تیاریاں اور سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ چند دن قبل انہوں نے ممبئی میں سیاسی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور سے چار گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ حالانکہ اس وقت اس ملاقات کو خیرسگالی اور اظہار تشکر کیلئے کی گئی ملاقات قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے ہی یہ اطلاعات گشت کرنے لگی تھیں کہ آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور شرد پوار چاہتے ہیں کہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ اب تازہ ترین تبدیلیوں میںشرد پوار نے آج ایک بار پھر پرشانت کشور سے دہلی میں ملاقات کی ہے اور اس کے بعد کل شرد پوار اور حال ہی میں ترنمول کانگریس میںشامل ہوئے یشونت سنہا کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا جا رہا ہے جس میں اپوزیشن کے اتحاد کو آگے بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ابھی سے حکمت عملی کا اظہار نہیں ہوا ہے لیکن جو آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے یہ اپوزیشن اتحاد ہی کی کوشش ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ شرد پوار چاہتے ہیں کہ نہ صرف 2024 کے عام انتخابات میں بلکہ اترپردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتیں متحدہ طور پر مقابلہ کریں۔ ابھی تک راشٹریہ جنتادل ‘ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے کچھ قائدین کو دعوت نامہ بھی روانہ کردیا گیا ہے اور دوسری جماعتوں نے دعوت نامہ ملنے سے انکار کیا ہے۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ ابھی سے کچھ گوشوں کی جانب سے شرد پوار کی کوششوں پر تنقید شروع ہوگئی ہے اور کچھ قائدین اس اجلاس میںشرکت سے انکار بھی کررہے ہیں۔ حالانکہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے بی جے پی سے مشترکہ مقابلہ کرنا سبھی جماعتوں کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب ملک کی کسی بھی جماعت میں بی جے پی سے تنہا مقابلہ کی سکت نہیں رہ گئی ہے اور نہ کسی کے پاس ایسے وسائل ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن اتحاد ہی ایک واحد راستہ ہے ۔
مہاراشٹرا میں گذشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد شیوسینا جیسی جماعت کو بی جے پی سے دوری اختیار کرنے اور کانگریس و این سی پی سے اتحاد کیلئے راغب کرنے کیلئے شرد پوار نے جو رول ادا کیا تھا وہ سارے ملک پر عیاں ہے ۔ ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں ہی مہاراشٹرا میں صدر راج ختم ہوا تھا اور پھر تین جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت بھی تشکیل پائی ہے ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا سہرا صرف شرد پوار کے سر جاتا ہے اور انہوں نے اب اگر قومی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ ان کی کاوشوں میں ہر گوشے سے مدد کی جانی چاہئے۔ کچھ جماعتوں کو اگر طرز کارکردگی اور طریقہ کار پر تحفظات ہوں یا اختلافات ہوں تو ان کو بھی باہمی اور آپسی بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ ایک بنیادی مقصد پر اتفاق رائے ہوجائے تو دوسرے ضمنی مسائل کو حل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ پہلے تو سبھی اپوزیشن جماعتوں کو ایک بات پر متفق ہونا چاہئے کہ وہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر علاقائی جماعتیں ایک جٹ ہو کر مقابلہ نہیں کرتی ہیں تو ان کا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائیگا ۔ اس سلسلہ میں بہار میں جے ڈی یو اور آندھرا پردیش میں تلگودیشم کی مثالیں ذہن میں رکھنی چاہئے۔ حالیہ ایل جے پی میں بغاوت اور چراغ پاسوان کو یکا و تنہا کردئے جانے کا بھی نوٹ لیا جانا چاہئے۔
بی جے پی دوسری تمام جماعتوں کو بتدریج ختم کرنے کی کوششیں شروع کرچکی ہے۔ جو جماعتیں اس کی مخالف ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن جو جماعتیں بی جے پی کے ساتھ بھی ہیں ان کو بھی کمزور کرتے ہوئے بی جے پی ان کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور استحصال کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں آج جو حالات پیدا ہوگئے ہیں وہ سبھی کے سامنے ہیں۔ عوام کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ۔ بیروزگاری انتہا درجہ کو پہونچی ہوئی ہے ۔ جی ڈی پی منفی ہوچلا ہے ۔ اس کے باوجود کوئی عوامی تحریک شروع نہیںہو رہی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہیں۔ اگر اس صورتحال میںشرد پوار نے ان جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش شروع کی ہے تو اس کا خیر مقدم کرکے سبھی کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے ۔