شعلہ بکف ہے زندگی امن وامان کی خیر ہو… مودی حکومت کے پہلے100 دن !!

   

غضنفر علی خان

مودی حکومت کے دوسرے دور کے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ بہ زبان خود مودی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ’’یہ 100 دن انتہائی کامیابی کے دن تھے‘‘، جو ہر اعتبار سے غلط ہے۔ یہ مودی حکومت کا دوسرا دور ہے جو مختلف ناکامیوں اور ناہمواریوں سے معمور رہا ہے۔ عوام وہ اچھے دن نہ دیکھ سکے جن کا بی جے پی اور خود مودی نے وعدہ کیا تھا، اب دوسرے دور میں بھی کوئی حوصلہ افزاء شروعات نہیں ہوئی ہے، سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ملک کی معیشت سست روی کی شکار ہوگئی ہے، حکومت چاہے کوئی دعویٰ کرے مگر ماہرین معاشیات یہ ثابت کرچکے ہیں کہ معیشت سست روی کی وجہ سے مائل بہ زوال ہے اور اس زوال آزما معیشت کو بہتر بنانے کیلئے نہ تو حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ اس سمت میں کوئی توجہ ہے۔ وزیراعظم مودی گزشتہ دور حکومت کی طرف اب بھی وہی سبز باغ دِکھا رہے ہیں جو انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے دور میں کئے تھے۔ فی کس آمدنی ہے کہ گرتی جارہی ہے، ملک میں غربت کے شکار عوام مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پِس رہے ہیں۔ امیر طبقات اور سماج کے غریب طبقات کے درمیان فاصلہ ناقابل عبور حد تک بڑھ گیا ہے۔ آج کل ہماری معیشت کچھ اس قسم کی ہے، اس میں دولت مند اور زیادہ امیر ہوتا جارہا ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گذارنے والے افراد اب اپنی محرومی کا گلہ و شکوہ بھی نہیں کرسکے۔ معاشی اعتبار سے ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن مودی حکومت مگن ہے کہ اس نے کئی سارے مسائل حل کردیئے۔ مودی حکومت دراصل ’’امیت شاہ۔ مودی‘‘ کی حکومت ہے۔ یہ دونوں سمجھتے ہیں کہ ملک کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں ہے۔ وزیراعظم مودی عملاً ’’نمائشی وزیراعظم‘‘ رہ گئے ہیں اور تمام اہم فیصلے و اُمور امیت شاہ ہی کردیئے ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم کو ملک کی کوئی فکر نہیں ہے، وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان کی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ عملاً حکومت چلا رہے ہیں جس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ہے، وہ ریاست گجرات کے بھی وزیر داخلہ رہ چکے ہیں لیکن قومی اور بین الاقوامی مسائل اور سیاسی پس منظر سے ناواقف ہے، اس پر یہ طرہ کہ بی جے پی کی یہ حکومت اپنے دوسرے دور کے ابتدائی 100 دنوں میں کئی کارہائے نمایاں انجام دی ہیں جو سراسر غلط دعویٰ ہے کیونکہ ملک آگے کی طرف بڑھنے کے بجائے مختلف قسم کے سماجی مسائل کا شکار ہورہا ہے۔ جب سے بی جے پی ، حکومت کررہی ہے، ہندوستان میں اس کا ملاجلا سماج منتشر ہورہا ہے، اس میں ایک نئی طبقاتی کشمکش شروع ہوگئی ہے جو نہ صرف معاشی نوعیت کی ہے بلکہ اس سے زیادہ مذہبی اور سماجی قسم کی ہے، اگر یہ کشمکش یوں ہی جاری رہے تو پھر ہندوستانی سماج منتشر ہوجائے گا۔ حکومت کی پالیسی کے مطابق ملک کے سماج میں جو مختلف طبقات رہتے ہیں، وہ ابھی تک ہندوستانی بھی کہلاتے تھے لیکن اب ہندوستانیوں میں کئی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ ملک کی کثیر آبادی ہندوؤں کی ہے لیکن بی جے پی حکومت نے کچھ ایسا طریقہ کار اختیار کیا ہے کہ ہندوازم کی مختلف انداز میں تعریف (Defination) کی جارہی ہے، اب صرف وہی اکثریتی طبقہ قابل قبول ہے جو بی جے پی اور ہندوتوا کے نظریات سے اختلاف نہیں رکھتا۔ آج ہندوستان میں وطن دوست ہونے کے لئے یا قرار دیئے جانے کیلئے اس کو بی جے پی کی تائید کرنی پڑتی ہے اور وہ ہندوستانی باشندہ وطن دشمن قرار دیا جارہا ہے اور وہ ہندوستان سے کوئی محبت نہیں رکھتا بلکہ وہ وطن دشمن کہلاتا ہے حالانکہ کسی سیاسی پارٹی کے نظریات سے اختلاف کرنا کوئی دستوری یا قانونی جرم نہیں ہے لیکن بی جے پی حکومت اور امیت شاہ، مودی کی جوڑی ہر کسی پر یہ بوجھ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے کہ اگر وہ سراسر مکمل طور پر وطن دوست ہے تو اس کو بی جے پی کی ہندوتوا کی حامی طاقتوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ ملک کے دستور میں یا سارے نظام قانون میں یہ بات نہیں کہی گئی کہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی یا اس کے نظریہ کی حمایت سچے ہندوستانی ہونے کیلئے اولین شرط ہے۔ یہ اختراع یا سیاسی بدعت بی جے پی نے ایجاد کی ہے جس کی وجہ سے ہمارا سماجی انتشار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت بی جے پی کے نظریہ اور سابق سیاسی نظریات میں کھلا اختلاف بھی شروع ہوگیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج ہمیں ان دونوں متضاد نظریات میں ہندوستان کو بانٹتا جارہا ہے اور سیاسی اعتبار سے ملک میں دو علیحدہ علیحدہ طبقات جنم لے رہے ہیں۔ یہ بات کہنا مشکل ہے کہ ہندوتوا کے حامی اور سنگھ پریوار میں شامل طاقتوں کی جیت ہوگئی ہے یا پھر متوازن سکیولر اور تحمل پسند طاقتوں کو فتح حاصل ہوگئی۔ بی جے پی حکومت نے ملک کو دو مختلف سیاسی دھاروں میں بانٹ دیا ہے، تمام دستوری ادارے اور قانون ساز ادارے معطل ہوچکے ہیں یا کم از کم ان کی کارکردگی اور دائرۂ عمل کو بے حد تنگ کردیا گیا ہے، یہ بات ملک کے ممتاز قانون دان بھی کہہ رہے ہیں کہ بغاوت کے قانون کے تحت معصوم افراد کو قانون کے شکنجے میں پھنسایا جارہا ہے جو اِنصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ حال ہی میں گجرات کے شہر احمدآباد میں ایک ورک شاپ سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے اس بات پر اپنے دُکھ اور تشویش کا اظہار کیا ہے کہ قانون کی من چاہی تشریحات کے ذریعہ معصوم لوگوں کو پھنسایا جارہا ہے۔ آزاد اور خودمختار جمہوری اداروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ جسٹس مشرا کی یہ تشویش قطعی طور پر حق بجانب ہے۔ بھلا ایسے شخص کی رائے سے کیسے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ جس نے کئی برسوں تک قانون کی صحیح تشریح کی ہے اور ملک کے نظام قانون کی آبرو کی حفاظت کی ہے۔ ویسے اور معاملات میں بھی دستوری اداروں کو جو خودمختار ہیں، غیرموثر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بات صرف جسٹس دیپک مشرا ہی نے نہیں کہی ہے بلکہ قانون کی بالادستی کو اور اس کی حکمرانی کو من و عن نافذ کرنے کی وکالت اور بھی ماہرین دستور اور قانون نے بارہا کی ہے لیکن بی جے پی حکومت کو کسی معاملہ میں بھی دیانت دار اور فرض شناس ماہرین کی کوئی اہمیت نہیں ہے، حکومت تو یہ سمجھتی ہے کہ وہی قانون کے نفاذ کی واحد ذمہ دار ہے اور یہ احساس کرتی ہے کہ اس سے بالاتر اور کوئی طاقت نہیں ہے۔ سارے اچھے کاموں کا ٹھیکہ گویا اسی حکومت نے لے رکھا ہے۔ پچھلے دور اقتدار میں بنی مودی حکومت نے کئی متضاد فیصلے کئے جن کا براہ راست عوام پر منفی اثر پڑا۔ اب دوسرے دور کے صرف 100 دن مکمل ہونے پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بی جے پی حکومت مسائل کو ٹالتی نہیں ہے بلکہ اپنی محدود سمجھ بوجھ سے ان کا حل بھی ڈھونڈ نکالتی ہے، اس قسم کا دعویٰ خود وزیراعظم مودی نے ہریانہ کی ایک ریالی کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہریانہ میں ہوا کا رُخ بی جے پی کے حق میں بدل دیا ہے۔ خیر ہوا کے رُخ کے بدلنے کا دارومدار وزیراعظم پر نہیں ہے بلکہ حکومت کی پالیسیوں پر ہے، اس لئے جھوٹے اور پُرفریب نعروں کے ذریعہ عوام کے دِلوں کو نہیں جیتا جاسکتا ہے۔ جب تک حکومت ایسے طرز عمل کو ترک کرکے حق پسندی کا رویہ اختیار نہیں کرتی، تب تک ایسے دعوے جھوٹ کا پلندہ ہی سمجھے جائیں گے۔ مودی حکومت کے دور میں…
شعلہ بکف ہے زندگی امن و امان کی خیر ہو
مل کر دُعائیں مانگئے سارے جہاں کی خیر ہو