شہریت ترمیمی بل ہندوراشٹراکا عملاً سنگ بنیاد

   

مسلم پرسنل لاء اور جمعیت العلماء کے موقف سے سخت مایوسی
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے مخالف فیصلہ کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حسب توقع ریویو کیلئے درخواست دائر کرنے کافیصلہ کیا اور یہ بھی متوقع تھا کہ یہ درخواست مسترد کردی جائیگی لیکن دردمندانِ ملت کو یہ اُمید تھی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ریویو درخواست مسترد ہونے پر اپنے احتجاج کو درج کروائیگا اور موجودہ حالات کے پیش نظر ملکی سطح پر یا کم سے کم مرکز دہلی میں پراثر احتجاج کا مظاہرہ کریگا ۔ کیونکہ موجودہ حکومت کی منظم اور جارحانہ منصوبوں کے روک تھام کیلئے ملک گیر احتجاج کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا تھا اورمسلم پرسنل لاء بورڈ نیز جمعیت العلماء سے توقعات وابستہ تھیں کہ وہ ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کے رُخ کو موڑنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ، لیکن تاحال دونوں مذہبی قیادتوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو دلاسا دینے اور اُنھیں ہمت و حوصلہ اور مقابلہ و اقدامی جرأت پیدا کرنے میں کوئی نمایاں رول ادا نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیرسایہ ہندوستانی مسلمان مکتب و مسلک کے اختلاف کے باوجود متحد ہیں اور تمام اسلامی جماعتیں اور مکاتب فکر مسلم پرسنل لاء بورڈ سے منسلک ہیں اور وہ سب ایک قرارداد پر اتفاق کرتے ہیں ۔ یہ بلاشبہ ہندوستانی مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت العلماء سے مایوسی اس لئے ہوئی کہ ان سے توقعات وابستہ تھیں تاہم ہم پُرامید ہیں کہ ان میں ایسے بزرگ موجود ہونگے جنھوں نے اپنی جوانی میں پہاڑی قامت بلند حوصلہ اکابر کو سخت ترین حالات میں اقدامی فیصلے لیتے ہوئے بے باکانہ حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ ایسے دور میں جبکہ دشمن سپریم کورٹ کی بالادستی کا منکر ہے ہمارا عدلیہ کے طریقہ کار پر اکتفاء کرنا اور کوئی دوسرا لائحہ عمل نہ رکھنا تکلیف دہ ہے اور اس میں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہندوستان کے علماء ، حکومت کے مخالف حقوق انسانی پالیسیز اور دستورہند کے منافی منصوبوں کو دیگر ابنائے وطن کے سامنے پیش کرنے اور مسلمانوں کے تحفظ کیلئے ان کو آمادہ کرنے میں صدفیصد ناکام ہوئے ہیں۔ کیا اس جانب غور کرنا اور اس کے لئے حکمت عملی تیار کرنا ہمارا فرض نہیں ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف کے قائم کردہ نظام تعلیم سے وابستہ رہنا اور آئندہ حالات کے پیش نظر منصوبے تیار کرنے کے معارض ہے ؟ بلکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دینی مدارس کے علماء ، مذہبی جماعتوں کے سربراہ جدید اعلیٰ تعلیم کے مسلم طلباء و طالبات کو متاثر کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف مسلم اور غیرمسلم طلباء و طالبات کا بے باکانہ اور مجاہدانہ احتجاج کرنا معنی خیز ہے جبکہ مذہبی رہنما پس و پیش میں ہیں اور ان کے فالوورس ان کے اعلان کے ابھی منتظر ہیں۔ کس قدر ذہنی سونچ کا تفاوت ہے ؟

دوسری طرف کانگریس پارٹی جوکہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے ، وہ برسراقتدار حکومت کے غیرانسانی نیز عوام دشمن پالیز سے فائدہ اُٹھانے اور خود کو مستحکم کرنے سے قاصر ہے اس لئے کانگریس پارٹی گاندھی خاندان کے وارث راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کو مرکزی کردار میں دیکھنا چاہتی ہے اور تاحال یہ دونوں مرکزیت حاصل کرنے اور عوام الناس کے ہر طبقہ کو متاثر کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ اس جماعت میں قابل ترین لیڈرس موجود ہیں لیکن گاندھی خاندان کی بالادستی کے لئے تجربہ کار قائدین کو کلیدی ذمہ داری سونپی نہیں جارہی ہے ۔ علاوہ ازیں کانگریس کی زیرحکومت مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستان کچھ مختصر یا کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہے۔
میرے پیر و مرشد حضرت ابوالخیرات سید انواراﷲ شاہ نقشبندی مجددی و قادری جانشین حضرت محدث دکنؒ نے پندرہ برس پہلے کہا تھا کہ بی جے پی مضبوطی کے ساتھ مرکز میں پہنچنے کیلئے تیار ہے ان حالات میں مسلمانوں کو ریاستی حکومتوں پر دباؤ بنائے رکھنا اور ان کو بی جے پی کی تائید سے دور رکھنا ضروری ہے اور آج کئی ریاستیں CAB اور NRC کے خلاف احتجاج کررہی ہیں اور متعدد ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد قابل لحاظ ہے وہ ریاستی حکومت کو برسراقتدار لانے میں اور حکومت سے دور رکھنے میں قابل لحاظ رول ادا کرنے کے موقف میں ہیں۔ بہرکیف موجودہ مرکزی حکومت کے زہرآلود نظریات کو روکنے کے لئے ایک زبردست ملک گیر احتجاج کی ضرورت تھی جس ملک گیر احتجاج سے ہندوستان کے کروڑہا مسلمان قاصر تھے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو ڈھارس دینے غیرقوم کے دل میں نرمی پیدا کی اور غیرمسلم برادران وطن نہایت دلیری سے CAB اور NRC کے خلاف اپنی آوازیں بلند کررہے ہیں اور مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں اور روز بہ روز احتجاج میں اضافہ ہوگا اور مسلمانوں کے صدائے احتجاج کرنے میں مدد ملتی رہے گی ۔ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے مظاہرات اور جذبہ و جنون کو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر علامہ اقبال ؔکا معروف و مشہور مصرعہ آجاتا ہے ۔ ؎

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے CAB اور NRCبل کا پارلیمنٹ میں پاس ہونا گویا رسمی طورہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کا سنگ بنیاد ہے ۔ یہ درحقیقت جمہوری اور سیکولر ہندوستان سے ہندوراشٹرا بنانے کی پہلی کڑی ہے ۔ واضح رہے کہ سنگ بنیاد کے بعد ہندو راشٹرا کی تعمیر سے پہلے ہندوستان سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جائیگی ۔ یہ متنازعہ بل درحقیقت ہندوستان میں مسلم نسل کشی کا طئے شدہ منصوبہ کا اعلان ہے ۔ چنانچہ Genocide Watch کے بانی Dr Gregory Stanton نے 12 ڈسمبر 2019 ء واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سرکاری عہدیداروں اور کانگریس ممبران کو کشمیر اور NRC پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں یقینی طورپر نسل کشی راستے میں ہے اور انھوں نے بتایا کہ آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر تشدد دراصل Genocide سے پہلے کا اسٹیج ہے اس کے بعد Extermination کا مرحلہ آئیگا جس میں مسلمانوں کا قتل و خون کیا جائے گا اور ان کو تباہ و برباد کیا جائیگا ۔ واضح رہے کہ Dr.stanton نے نسل کشی کے دس مراحل بیان کئے ہیں اور یہ دس مراحل بہت مشہور و معروف ہوئے ہیں : ۱۔ Classification درجہ بندی “Us Versus Them” ( ہم بمقابل وہ ) مثال کے طورپر ہندو بمقابل مسلمان ۔ ۲۔ Symboliztion یعنی متاثرین کو “Foreigner” بیرونی جیسے نام دینا ۔ جس طرح ارنب گوسوامی آسام کے باشندوں کو بار بار Foreigners کہکر بلارہے ہیں۔ ۳۔ Discrimination تفریق کرنا یعنی متاثرین کو شہریت کے حامل افراد سے الگ کرناتاکہ ان کے بحیثیت شہری کوئی حقوق نہ رہیں۔ ۴۔ Determinization جب ان کو شہریت سے محروم کردیں تو ان کو بدنام کیا جائے کہ وہ مثال کے طورپر دہشت گرد ہیں یا انسان نہیں بلکہ جانور ہیں اسی طرح کی حرکتیں موجودہ حکومت آسام کے باشندوں کے بارے میں کررہی ہے۔ ۵۔ Organization یعنی نسل کشی کرنے کیلئے کوئی تنظیم بنانا مثال کے طورپر کشمیر میں آرمی نے یہ کردار ادا کیا ۔ ۶۔ Polarization یعنی پروپگنڈہ وغیرہ کے ذریعہ متاثرین کو علحدہ کردینا ۔ ۷۔ Preparation تیاری کرنا ۔ ۸ ۔ Persecution یعنی جلاوطنی ، جبر و دباؤ ، تشدد اور کشمیر اور آسام کی نسل کشی کے اس آٹھویں مرحلے میں ہے اس کے بعد نواں مرحلہ Extermination قتل و خون اور تباہی و بربادی کا ہے اس لحاظ سے کشمیر او رآسام تباہی اور قتل و خون کے دھانے پر ہیں اس کے بعد آخری مرحلہ رہ جاتا ہے اور وہ Denied ہے کہ آپ سرے سے انکار کردیا جائے گا کہ کوئی نسل کشی نہیں کی گئی حالات قابو میں ہیں بلکہ ہندو دہشت گردوں کو سزا دی گئی ہے ۔ اسی مراحل سے میانمار میں نسل کشی کی گئی ہے اور سوکی نے برملا فوج کی مسلم نسل کشی کی تردید کی ہے ۔
پس CAB اور NRC کے خلاف احتجاج کرنا مسلمان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ یہ ہندوستان کے آئین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ہے لہذا اس بل کی برخواستگی تک جدوجہد کو جاری رکھنا ہندوستان کے بلالحاظ ہر باشندہ کا فرض منصبی ہے ۔