!شہریت ترمیمی قانون نافذ العمل

   

زنداں کے دَر و بام بھی حق مانگ رہے ہیں
کچھ خون کی بوچھار کرو موسم گل ہے
!شہریت ترمیمی قانون نافذ العمل
شہریت ترمیمی قانون 10 جنوری 2020ء سے نافذ العمل کردیا گیا۔ مرکزی حکومت نے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی حرص میں قانون کی سنگینیوں کو نظرانداز کردیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج جاری ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے گزٹ اعلامیہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو ان کے ہی ملک میں بے یارومددگار چھوڑ دینے کی ایک خطرناک چال چلی ہے۔ اس کے عواقب، نتائج دھیرے دھیرے رونما ہوں گے۔ 11 ڈسمبر کو پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد مودی حکومت نے اس بل کو صدرجمہوریہ کی جانب سے 14 ڈسمبر کو توثیق کرالی اور اس پر عمل آوری کی تاریخ بعدازاں طئے کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن قانون کو نافذ کرنے میں بھی عجلت سے کام لیتے ہوئے یہ پیام دیا گیا کہ قانون کے خلاف شدید احتجاج اور عوام کی بڑی تعداد کے غم و غصہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ قانون کے خلاف رائے کو اہمیت نہ دیتے ہوئے یکطرفہ طور پر حکومت کی من مانی کے مستقبل میں بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ قانون کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں اب مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا عمل شروع کرتے ہوئے دستور ہند کی اصل روح کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون پر بحث و مباحث کے بعد بی جے پی اکثریتی ارکان کے ووٹوں سے منظور کرالیا گیا لیکن یہ نہیں دیکھا گیا کہ قانون کی مخالفت میں کتنی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ آگے چل کر اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں قانون کی تائید میں مظاہرے ہوتے ہیں تو گجرات اسمبلی نے قانون کے حق میں قرارداد بھی منظور کی ہے جبکہ اپوزیشن حکمرانی والی ریاستوں کیرالا، پنجاب اور مغربی بنگال نے اعلان کیا ہیکہ وہ اس نئے شہریت قانون پر عمل نہیں کریں گی۔ مہاراشٹرا کی شیوسینا اتحادی حکومت نے بھی قانون کو نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سی اے اے کے خلاف ملک کی مختلف ریاستوں میں شدید احتجاج ہورہا ہے۔ دہلی میں لوگ کئی دنوں سے اس قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس قانون کے خلاف سب سے زیادہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ نے احتجاج کیا ہے۔ جے این یو میں طلباء کے مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ اترپردیش میں پرتشدد احتجاج ہوئے۔ یو پی کے کئی اضلاع خاص کر فیروزآباد، رام پور، میرٹھ، مظفرنگر، بلند شہر اور بہرائچ میں شہریوں نے اپنا احتجاج درج کیا تو حکومت اور پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ مرکزی حکومت اور اس کی طرفدار حکومتوں نے قانون کی مدافعت کی ہے۔ حکومت کو اس قانون میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ہندوستان کو ساری دنیا میں رسواء کرنے والے قانون کے ذریعہ انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ جنوبی ایشیاء میں امن کے امکانات کو دھکہ پہنچ سکتا ہے۔ ہندوتوا کے بیانر کے تحت مودی ح کومت نے اکثریتی عدم رواداری کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ اقلیتی طبقات کو خوفزدہ کرکے ان کے حق کو چھین لینے اور انہیں ان کی ہی سرزمین پر بے سہارا کردینے کی اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے اب ملک کے ہر گوشے سے پرزور جدوجہد کا تقاضہ قوی ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں اگر انارکی پیدا ہوجائے تو پھر کوئی سسٹم باقی نہیں رہے گا مگر سارے سسٹم ہی لپیٹ دیئے جائیں گے تو حکومت کے پاس انسانی معاشرہ کو بہتر بنانے کی فکر ہی نہیں ہوگی۔ بی جے پی کو اس وقت اپنی شان میں نعرے سننا بہت اچھا معلوم ہورہا ہے لیکن اسے وقت کیلئے بے رحم ہاتھوں کی جانب بھی دیکھنا ہوگا۔ ہم تو اتنی ہی بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے عوام کی نبض کو پہچاننے میں غلطی نہ کی جائے۔ ہوسکتا ہیکہ بی جے پی اپنے ہندوتوا نظریہ کو مسلط کرنے کیلئے اس طرح کے قوانین کو ہتھیار بنانا چاہئے مگر اس ملک کے عوام کی بڑی تعداد کیلئے وہ جوابدہ بھی ہے۔ اسے اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے اس قانون سے برصغیر میں انسانی بحران اور انسانی المیہ رونما ہوں گے تو ان حالات سے نمٹنا بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔ انسانی وقار و مرتبہ اور سماجی انصاف کا حل صرف کثیرالوجود ہندوستان میں ہی ہے۔ کثرت میں وحدت نظریہ کو دھکہ پہنچانے کے نتائج بہت جلدسامنے آئیں گے۔ مودی حکومت کیلئے یہ سی اے اے اس دھنتروید کی طرح ثابت ہوگا جو سانپ پکڑنے میں مہارت رکھتا تھا لیکن وہ سانپ کے ڈسنے سے ہی مرا تھا۔
ایران۔ امریکہ کو جنگ سے روکنے یوروپ سرگرم
یوروپی ممالک کے قائدین کو اپنے خطہ میں امن کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ایران ۔ امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے ساری دنیا کیساتھ ساتھ یوروپ کے لوگوںکو بھی بے چین کردیا ہے۔ اب یہ دنیا ترقی کی کئی منزل طئے کرچکی ہے۔ نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس ممالک کے پاس انسانی ترقی کیلئے کئی جدید ٹکنالوجی آگئی ہے۔ اس کے باوجود جب دو ممالک اپنے مفادات کیلئے باہم متصادم ہونے والی حرکتیں کرتے ہیں تو یہ ساری دنیا کی انسانیت کیلئے ایک خطرہ کی گھنٹی ہوتی ہے۔ ایران۔ امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی نے جنگ کے دہانے کو مزید سلگتا چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ نے عراق میں اپنے ٹھکانوں پر ایران کے حملوں کے فوری بعد کشیدگی کو کم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ ایران اور امریکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں سے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کا بلکہ دنیا کی بیشتر آبادی کا نقصان ہوگا۔ جنگ بھڑکنے سے نیوکلیئر پھیلاؤ کا سنگین بحران پیدا ہوگا۔ اس لئے ایران اور امریکہ کو صبر سے کام لینے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ یوروپی قائدین نے پہل کرتے ہوئے دونوں متصادم ملکوں کو لڑائی کے محاذ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ ایک اچھی مساعی ہے۔ ایران نے جہاں اب تک دانشمندانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے وہیں اسے اب آگے بھی شعوری طور پر بحران کو ٹالنے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کی کارروائیوں سے باز رکھنے کیلئے امریکی قائدین نے کوشش شروع کی ہے۔ امریکی ڈیموکریٹس نے قرارداد منظور کرتے ہوئے ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے ٹرمپ کو روکنے کیلئے رائے دہی بھی کی ہے تو اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔