شیشہ و تیشہ

   

اقبال شانہؔ
آزمانا چاہیئے !
موسموں کی شدتوں کو آزمانا چاہئے
برف کھانا چاہئے، اولے چبانا چاہئے
گرمیوں میں گرم پانی سے غسل فرمائیے
سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا چاہئے
…………………………
فرید سحرؔ
مزاحیہ غزل
بات سچ میں بتانا نہیں چاہتا
جان اپنی گنوانا نہیں چاہتا
میں سیاست میں آنا نہیں چاہتا
منہ کو کالک لگانا نہیں چاہتا
کام مدت سے اٹکے ہوئے ہیں مرے
میں جو رشوت کھلانا نہیں چاہتا
شادیاں بیٹیوں کی ہیں کرنی مجھے
’’میں ابھی مُسکرانا نہیں چاہتا‘‘
ایک گھر مُجھ کو ڈؤری میں کافی ہے بس
میں کوئی اب خزانہ نہیں چاہتا
نیک انساں بناؤں گا بیٹے کو میں
اس کو لیڈر بنانا نہیں چاہتا
کس لئیے میں بناؤں محل اک یہاں
عارضی میں ٹھکانا نہیں چاہتا
دل میں بیوی کو دوں گا جگہ میں مگر
اس کو سر پر بٹھانا نہیں چاہتا
مُجھ کو لاکھوں روپئے مل رہے ہیں سحر
ٹیم کو میں جتانا نہیں چاہتا
…………………………
میری فکر چھوڑیئے !
٭ ایک بار ایک خاتون پستول خریدنے ہتھیاروں کی دوکان پر گئی ۔ پہلے تو دکاندار تھوڑا گھبرایا اور پھر بولا : ’’یہ پستول آپ کو خود کے بچاؤ کیلئے چاہئے نہ ؟‘‘
خاتون : نہیں ! اپنے بچاؤ کیلئے تو میں وکیل کا انتظام کرلوں گی ! آپ تو بس پستول دیجئے !!
اسریٰ جمیل ۔ ٹولی چوکی
…………………………
اختلاف رائے …!
٭ برطانوی وزیراعظم چرچل سے کسی نے پوچھا : ’’مشہور فلسفی ڈیکارٹس کا کہنا ہے ، میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں ۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟‘‘
چرچل نے جو نہایت فربہ اندام آدمی تھے ، کہا : ’’مجھے اس سے اختلاف ہے ، میں کچھ اور سمجھتا ہوں ‘‘۔
مخاطب نے کہا : ’’اچھا ! آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ ‘‘
چرچل نے کہا : ’’میرا خیال ہے ، میں کھاتا ہوں ، اس لئے میں ہوں ‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
میں نہیں چاہتی !
ایک سہیلی اپنی دوسری سہیلی سے : تم اپنے لئے کیسی بہو چاہتی ہو ؟
دوسری سہیلی : سمجھدار ، خوش مزاج ، ملائم ، برداشت کا مادہ رکھنے والی اور گھریلو کام کاج کی ماہر ۔ پہلی سہیلی : اتنی خوبیاں کس لئے ؟
دوسری سہیلی : اس لئے کہ ’’میں نہیں چاہتی کہ جو تکلیف میری ساس نے اُٹھائی ہے وہ میں نہ اُٹھاؤں ‘‘۔
ایس جے رحمن ۔ سنتراش واڑی ، گلبرگہ
…………………………
تم کیوں نہیں بنتے !
بھکاری : ایک تاجر سے بابا ! ایک روپیہ دیدو تو تم لکھ پتی بن جاؤ گے ۔
تاجر : تو تم مجھے ایک روپیہ دیکر لکھ پتی کیوں نہیں بن جاتے ۔
…………………………
خراب گھڑیاں!
مالک : وسیم ، یہ تمہیں کیسے معلوم کے اُس دوکان کے سبھی گھڑیاں خراب ہیں؟
وسیم : مالک ، میں نے دیکھا اُس دکان کی ہر گھڑی الگ الگ وقت بتارہی تھیں!
فواز ، ماہر صدیقی ۔ ملک پیٹ
…………………………
بدمعاش
٭ ایک مقدمہ میں گواہ نے بار بار یہ تصدیق کرنے کی کوشش کی کہ اس ہوٹل میں بدمعاشوں کا اڈہ ہے ۔
دوسری طرف کے وکیل نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’اس ہوٹل میں جو بدمعاشی کا اڈہ ہے اس کو ثابت کرنے کیلئے تم نے جو دلیلیں پیش کی ہیں ، ان میں دم نہیں ہے ۔ کوئی ایسی ٹھوس وجہ بتاؤ جس پر یقین کیا جاسکے ‘‘
یہ سن کر گواہ نے جواب دیا : ’’میں نے آپ کو بھی وہاں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا !‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………