شیشہ و تیشہ

   

ڈر لگتا ہے …!!
اپنے گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
گھر کے باہرتیرے گلزار سے ڈر لگتا ہے
خوشبوؤں لذتوںرنگوں میں خوف پنہاں ہے
برگ سے پھول سے اشجار سے ڈر لگتا ہے
فاصلے بن گئے تکمیلِ محبت کا سبب
وصلِ جاناں سے رُخِ یارسے ڈر لگتا ہے
اُسکی یادوں سے ہی تسکینِ تصور کرلوں
اب مجھے محفلِ دلدار سے ڈر لگتا ہے
سارے تبدیل ہوئے مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے اب پیار سے ڈر لگتا ہے
تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب قربتِ بیمار سے ڈر لگتا ہے
جنکی آمد کو سمجھتے تھے خدا کی رحمت
ایسے مہمانوں کے آثار سے ڈر لگتا ہے
اب تو لگتا ہے میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے ہاتھ کی تلوار سے ڈر لگتا ہے
تن کے کپڑے بھی عدوپیر کے جوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئے دَستار سے ڈر لگتا ہے
جو گلے مل لے مری جان کا دشمن ٹھہرے
اب، ہر اک یارِ وفادار سے ڈر لگتا ہے
ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو، گنبد و مینار سے ڈر لگتا ہے
بن کے ماجوج، نمودار ہوا چاروں اور
اِسکی یاجوج سی رفتار سے ڈر لگتا ہے
عین ممکن ہے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے کوچہ و بازار سے ڈر لگتا ہے
خوف آتا ہے صحیفوں کی تلاوت سے اب
ہر رسالے سے ہر اخبار سے ڈر لگتا ہے
اب تو اپنوں سے مصافحہ بھی پُر خطر ہے وھابؔ
یوں نہیں ہے کہ فقط اغیار سے ڈر لگتا ہے
…………………………
سونچنے کی کیا بات ہے !
٭ مرزا صاحب کسی گہری سوچ میں بیٹھے تھے کہ بیوی نے آکر پوچھا ’’کیا سوچ رہے ہو ‘‘ ۔ مرزا صاحب نے غمزدہ ہوکر کہا : ’’تاج محل کا خیال آگیا اور پھر میں سوچنے لگا کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری قبر پر کیسا کتبہ لگنا چاہئے ؟‘‘ ۔
بیوی بولی : اس میں سونچنے کی کیا بات ہے ، آج کل سادگی کا زمانہ ہے ’’مرزا مرحوم کی بیوی‘‘ کافی رہے گا ۔
محمد منیرالدین الیاس۔ مہدی پٹنم
…………………………
پلاسٹک سرجری
٭ ایک صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا
’’پلاسٹک سرجری کتنے کی ہو گی؟‘‘
ڈاکٹر : ’’پانچ لاکھ کی‘‘
وہ صاحب : ’’اگر پلاسٹک ہم خود دیدیں تو؟‘‘
مرزا عثمان بیگ ۔ جمال بنڈہ ، فاروق نگر
…………………………
غریب آدمی !
بیٹا ماں سے : ’’ امی جان ! مجھے پانچ روپئے چاہیئے، مجھے ایک غریب آدمی کو دینا ہے۔
ماں نے پوچھا : وہ آدمی کہاں ہے؟ ‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’ امی ! وہ گلی کے موڑ پر کھڑا آئس کریم بیچ رہا ہے۔‘‘
شیخ فہد۔چندرائن گٹہ
…………………………
اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی …!
٭ ایک شخص دفتر سے شام میں گھر لوٹا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ اُس کی بیوی خلاف توقع خاموش تھی ورنہ وہ کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرتی رہتی تھی ۔ وہ شخص وہاں کھیل رہے اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھا: ’’کیا بات ہے بیٹا! تمہاری ممی آج خلاف توقع خاموش ہے ‘‘۔
بیٹا : ’’میری غلطی کی وجہ سے ‘‘
باپ : کیا مطلب ؟
بیٹا : ’’صبح جب اسکول جانے کو نکلا تو ممی نے ڈائیننگ ٹیبل پر رکھی ہوئی لپ اسٹک (Lip Stick) دینے کو کہا میں اسکول جانے کی گڑبڑ میں وہاں رکھی ہوئی فیوی اسٹک (Fevi Stick) گوند دیدی ۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
…………………………
تو پھر …!
٭ ایک کنجوس آدمی سے اس کے دوست نے پوچھا ’’ جب تمہیں ٹھنڈ لگتی ہے تو کیا کرتے ہو؟‘‘ کنجوس آدمی : ’’میں ہیٹر کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہوں ‘‘۔
دوست : ’’اگر پھر بھی ٹھنڈ لگے تو…؟‘‘
کنجوس آدمی : ’’تو میں ہیٹر آن کرلوں گا !‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………