رضوی نے کہاکہ سنیوں کی جانب سے متنازعات مقام پر نماز ادا کرنے کی اجازت مانگے کی اطلاعات ملنے کے بعد اس طرح کی اپیل کی ضرورت پڑی ہے
لکھنو۔ اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیرمن وسیم رضوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ان تمام دعوؤں سے دستبرداری اختیارکرلینے چاہئے جو متنازعات مقامات کے متعلق ہیں اور ”اپنے اجداد کی غطیوں میں سدھار لانے“ کے لئے مذکورہ مقامات کو ہندوؤں کے سپرد کردینا چاہئے۔
رضوی نے کہاکہ سنیوں کی جانب سے متنازعات مقام پر نماز ادا کرنے کی اجازت مانگے کی اطلاعات ملنے کے بعد اس طرح کی اپیل کی ضرورت پڑی ہے۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ اگر اس طرح کے معاملات حل نہیں ہوئے تو ایودھیا معاملہ حل ہونے کے بعد بھی اسی طر ح تنازعات فروغ پائیں گے۔
سوشیل میڈیا پر گشت کررہے ویڈیو میں رضوی نے یہ اپیل کی ہے۔ اپنی اس اپیل میں رضوی نے دعوی کیاہے کہ ملک بھر میں ایسے گیارہ تنازعات ہیں جس میں ماتھرا‘ واراناسی او رجونپور بھی شامل ہے۔
رضوی نے یہ بھی دعوی کیاکہ گرجا گھروں کو منہدم کرکے جہاں مسجد تعمیر کی گئی ہے وہاں پر بھی دوبارہ گرجا گھر کی تعمیر او ربازآبادکاری کی جانی چاہئے۔
انہوں نے کہاکہ ”اب وقت ہے‘مغلوں کی جانب سے لی گئی منادر کی زمین کو واپس لوٹایاجائے“۔انہوں نے مزیدکہاکہ”منادر کی جگہ پر جہاں مساجد تعمیر کی گئی ہیں اس کو ہندوؤں کے حوالے کردینا چاہئے۔ ہمیں اپنے اجداد کی غلطیوں میں سدھار لاتے ہوئے ملک میں امن قائم کرنے کی ضرورت ہے“۔
پیر کے روزانڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے رضوی نے کہاکہ ”سنیوں کی جانب سے متنازعہ مقام جہاں پر اب مسجد ہے کی جگہ نماز پڑھنے کی اجازت مانگنے کے بعد مذکورہ اپیل کرنے پڑی ہے۔
مگر یہ حل نہیں ہے۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کاحل تلاش کرنا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ اسی طرز کے معاملات فروغ پائیں گے کیونکہ گیارہ بڑے مقامات ہیں جہاں پر منادر کو منہدم کرکے مساجد کی تعمیر عمل میں لائی گئی ہے۔ کیونکہ متنازعہ مقاما ت پر نماز کی اجازت نہیں ہے۔
میں نے اسلام کے ماننے والے تمام لوگوں کے نام ایک اپیل جاری کی ہے تاکہ وہ اپنے اجداد کی غلطیوں میں سدھار لانے کے مذکورہ مقامات کو ہندوؤں کے حوالے کردیں“۔
ر ضوی کے خلاف چار مجرمانہ مقدمات ہیں جس میں لکھنو او رپریاگ راج میں ایک ایک جبکہ رام پور میں دو مقامات ہیں‘ مذکورہ مقدمات میں ان کے سال2016میں وقف اراضی کا بیجا استعمال او رغیرقانونی منتقلی کے دفعات عائد کئے گئے ہیں۔
حال ہی میں ریاستی حکومت نے مرکز سے سفارش کی ہے کہ وہ سنی اور شیعہ وقف بورڈ اور اس کے چیرمن پر لگائے جانے والے تمام بدعنوانیوں اور بیجا استعمال کی سی بی ائی جانچ کرائی جائے