صرف بی جے پی نہیں EVMs کو بھی شکست دینا ہوگا

   

پرینکا گاندھی کو اپوزیشن کی ’اینٹی ای وی ایم‘ مہم چلانے دیں

ایس ایم انور حسین
یہ اچھی علامت ہے کہ قومی اور علاقائی دونوں سطح کی مختلف سیاسی پارٹیاں جو سکیولر نظام حکومت پر یقین رکھتی ہیں اور بی جے پی کے صریح فرقہ پرستانہ اور فسطائی ایجنڈے کی مخالف ہیں، ایک دوسرے کے قریب آتے ہوئے باہمی ادراک پیدا کرتے ہوئے آر ایس ایس زیرقیادت بی جے پی کو ہمیشہ کیلئے شکست دینے کی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کانگریس پارٹی طویل عرصہ بعد اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، چالاکی، صبر اور متوقع سیاسی پارٹنرز سے ہوشیاری سے نمٹنے کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اگر میں عوامی رائے اور فکرمندی کے اعتبار سے دیکھوں تو مجھے بی جے پی کی کراری شکست محسوس ہوتی ہے۔ ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ڈوبتی کشتی کو چھوڑ کر کئی چوہے نکل رہے ہیں۔‘‘ کاش میں ہر کسی کو امیت۔مودی جوڑی کی ذلت آمیز شکست کا تیقن دے سکتا۔ میں ان ووٹوں سے خائف نہیں ہوں جو بی جے پی کے حق میں جائیں گے، لیکن سخت اندیشہ ہے کہ سکیولر اتحادوں کیلئے ڈالے گئے ووٹ کافی عیاری اور بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ بی جے پی کی طرف منتقل کئے جاسکتے ہیں۔
ایسے کئی اشارے اور تجزیے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ 2014ء میں بی جے پی کی تاریخی جیت میں تین چیزوں نے اہم رول ادا کیا۔ اول میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا۔ یہ میڈیا گھرانے ہی تھے جن کو گجرات کی طاقتوں نے ریموٹ کنٹرول کیا ، جو مودی کو سیاست کے مرکزی مقام پر لانے کی مہم چلارہے تھے اور مرکز میں یو پی اے حکومت کے دوسرے مرحلے کی شروعات سے ہی کانگریس اور یو پی اے اتحاد کے دیگر پارٹنرز کے خلاف خصوصیت سے مہم چلانے میں ملوث ہوئے۔ مودی کو دوسرے رام کے طور پر پیش کیا گیا جو ہندوستان کو ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی زیرقیادت ’’نہایت بدعنوان حکومت‘‘ کی جکڑ سے بچانے کیلئے آرہے ہیں۔ دونوں کے خلاف میڈیا کا خاکہ اس قدر طاقتور اور لگاتار رہا کہ عوام کو اس پروپگنڈے کی صداقت کی جانچ کا کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ اور عوام بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اس کینہ پرور پروپگنڈے سے ڈگمگا گئے اور اپنے ہاتھ کھول کر اُس خبیث کو گلے لگا کر استقبال کیا جسے دوسرا رام بناکر پیش کیا گیا۔
دوسرا کارڈ جو آر ایس ایس + بی جے پی+ وی ایچ پی+ بجرنگ دل+ ہندو یووا واہنی نے کھیلا، وہ ملک بھر میں مخالف مسلم کارڈ رہا۔ علی گڑھ میں میری پڑھائی کے دنوں سے میں نے کبھی اس قدر پُرکینہ اور جارحانہ مہم نہیں دیکھی کہ کسی کمیونٹی کو مجموعی طور پر شیطان صفت قوم بناکر پیش کیا جائے، جیسا کہ ہندوستان کو درپیش تمام تر خرابیوںکیلئے وہی ذمہ دار ہیں۔ پہلے، انھوں نے مسلمانوں کو بُری کمیونٹی بناکر پیش کیا اور پھر کانگریس کو مسلم خوشامدی کا موردِ الزام ٹہرایا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کانگریس کے طویل عرصہ تک اقتدار میں مسلمانوں کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوا۔ سچائی ہے کہ انھیں تمام محاذوں پر اس حد تک پریشانی ہوئی کہ جسٹس سچر کمیٹی کو کافی تحقیق سے تیارکردہ دستاویز میں انھیں سماجی اور معاشی طور پر سب سے زیادہ پسماندہ برادری قرار دینا پڑا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں نے ہندوستان پر لگ بھگ آٹھ سو سال حکمرانی کی، اور ہندوستان کو وقت کا سوپر پاور بنایا، انھیں آزادی کے بعد محض 50 تا 60 سال کے عرصے میں بتدریج سماج کی کمترین صف میں ڈھکیل دیا گیا؛ اور یہ سب ایسے دستور کے باوجود ہوا جسے انسانی ہاتھوں کا تدوین کردہ بہترین اور نہایت منصفانہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، ہندوتوا قوتوں کا یہ تمام تر کینہ پرور پروپگنڈہ جسے میڈیا کے بڑے گوشے کی مدد حاصل ہوئی، اس کا مقصد ہندو۔ مسلم انتشار ہے۔
بی جے پی کی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی کے پس پردہ تیسرا اہم عنصر EVMs (الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں)ہیں۔ اگرچہ اس کے خلاف کچھ بھی بہت قابل لحاظ ثابت نہیں ہوا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس میں دور سے اُلٹ پھیر کی جاسکتی ہے اور انتخابی نتائج کو پیشگی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اندرون و بیرون ملک کئی لوگ ہیں جنھوں نے اطمینان بخش مظاہرہ کیا ہے کہ کس طرح ان ای وی ایمز کو باہر سے ہیک کیا (بگاڑا) جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، جہاں تک میری جانکاری ہے، یہ ای وی ایمز گجرات میں تیار کی گئیں جہاں مسٹر مودی کا کیکڑے کی مانند ہر سرکاری اور غیرسرکاری مشنری پر کنٹرول رہا۔ قبل ازیں نہایت عصری اور ترقی یافتہ اقوام نے الیکشن میں ای وی ایم کو استعمال کیا تھا تاکہ انتخابی اور ووٹوں کی گنتی کے عمل کو آسان بناتے ہوئے وقت بچایا جائے۔ لیکن اس کا بیجا استعمال کئے جانے کے امکانات کو دیکھتے ہوئے ان ترقی یافتہ اقوام نے ان مشینوں کو ترک کردیا اور دوبارہ روایتی ووٹنگ سسٹم کو اختیار کرلیا۔ کیوں بی جے پی ای وی ایم کے استعمال پر اٹل ہے، یہ خود ثبوت ہے کہ 2014ء کے انتخابی نتائج سازباز کا نتیجہ رہے اور بی جے پی ہنوز اسی طرح کا الٹ پھیر اپنے حق میں ہونے کی امید کررہی ہے۔
اِس مرتبہ بی جے پی کو پتہ ہے کہ فرقہ وارانہ کارڈ ناکام ہوجائے گا۔ ہندوستانیوں کی بڑی اکثریت بی جے پی کے جھوٹ کو مختلف سطحوں اور شعبوں میں اس کے پرفارمنس اور وعدوں کے آئینے سے دیکھ چکی ہے۔ جو لوگ اس ملک سے محبت کرتے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی جھوٹی باتوں اور دھمکیوں والی پارٹی ہے۔ اس کا بدعنوان چہرہ رافیل معاملت میں اچھی طرح بے نقاب ہوگیا ہے۔ میڈیا پھر بھی بی جے پی کی حمایت کررہا ہے، لیکن میڈیا اور جرنلسٹوں کا چھوٹا گوشہ ہے جس نے نہ صرف بی جے پی کے جھوٹ کو فاش کیا، بلکہ میڈیا کے امراء کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ کو بھی آشکار کردیا ہے۔ لہٰذا، عوام اب اُن کے پروپگنڈے پر اندھے پن سے یقین کرنے اور اُن کے تابع رہنے والے نہیں ہیں۔ اور بی جے پی کو یہ بھی معلوم ہے۔ بی جے پی کے پاس ہنوز جو ٹرمپ کارڈ ہے وہ آنے والے الیکشن میں EVMs کا استعمال ہے۔ عوام اور سیاسی پارٹیوں کو چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انتخابی نتائج سے گمراہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بس دھوکہ دینے کی چال یا ناقص حساب کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔
ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ کس طرح اِس پوری حکومت میں حکمرانی کے ہر ادارہ کو زعفرانی بنایا گیا اور اس کا کھلم کھلا بیجا استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ عدلیہ کی آزادی کو تک خلل اندازی سے پاک نہیں چھوڑا گیا۔ کئی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مودی کی حکومت نے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی۔ تازہ ترین مثال چیف منسٹر کرناٹک کا جاری کردہ آڈیو ٹیپ ہے جس میں مسٹر یدی یورپا کو واضح طور پر ایسا دعویٰ کرتے سنا جاسکتا ہے کہ اُن کے قائدین امیت شاہ اور مودی جی ججوں کو سنبھال لیں گے۔ الیکشن کمیشن دستوری ادارہ اور آزاد اتھارٹی ہے۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ الیکشن کمیشن کو کس طرح زعفرانی بنا دیا گیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے اپنی خودمختاری کھودی یا حوالے کردی تو پھر سارا جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ اس لئے، اب وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں یکجا ہوں، نہ صرف مشترکہ طور پر انتخاب لڑنے، بلکہ سب سے پہلے ای وی ایمز کے استعمال کی مخالفت کریں۔ انھیں ضرور ای وی ایمز کے خلاف مل کر سڑکوں پر لڑائی چھیڑنا اور اس کی دلیل اساسی پر سوال اٹھانا ہوگا۔ اور یہ ان پارٹیوں کی حقیقی وفاداریوں کی آزمائش رہے گی۔ ای وی ایم کے استعمال کے خلاف جو بھی سبقت لیتے ہیں وہی پارٹیاں بی جے پی کی حقیقی حریف ہیں، اور جو اپوزیشن کیمپ میں شامل تو ہوجائیں لیکن ای وی ایم کے خلاف لڑائی کے مشتاق نہیں، درحقیقت بی جے پی کے ساتھ خاموش مفاہمت رکھتے ہیں۔ بی جے پی اتنی احمق نہیں کہ عمومی سطح پر ای وی ایمز میں الٹ پھیر کے ذریعے اس بار بھی زبردست فتح درج کرائے، کہ ای وی ایم سے پیدا کردہ انتخابی نتائج کے خلاف بین الاقوامی رائے ہموار ہوجائے۔ یہ نہایت ہوشیار اور زیرک لوگوں کی پارٹی ہے۔
اِس مرتبہ بی جے پی کا ٹارگٹ بس ایسی مقناطیسی صورتحال اُبھارنا ہے جس کے بعد ہر ایک وفادار صنعتی گھرانے کو مختلف پارٹیوں سے ایم پیز کے مختلف گروہوں کو خریدنے کا کام سونپا جائے گا۔ مایاوتی کی بی ایس پی اور شرد پوار کی این سی پی سب سے زیادہ مخدوش رہیں گے۔ کانگریس کو اس معاملہ پر ضرور سنجیدگی دکھاتے ہوئے پرینکا گاندھی کو مشرقی یو پی تک محدود کردینے کے بجائے انھیں اینٹی ای وی ایم فرنٹ کی کمانڈ دینا چاہئے۔ آنجہانی مسز اندرا گاندھی کی پرچھائی کی مانند پرینکا میں سیاسی میدان میں طوفان پیدا کردینے کی صلاحیت اور کرشمہ موجود ہے۔ ای وی ایمز کا غلط استعمال ہر ایک ہندوستانی چاہے ہندو ہو یا مسلم یا دلت یا اونچی ذات والا یا پسماندہ، اُس کے انتخابی حق پر قبضہ بالجبر کے مترادف ہے۔ اور مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ پرینکا کی شخصیت میں وہ جادو ہے کہ جدوجہد کی قیادت کرے اور عوام کو ان کی ذات اور نسل کے مفادات سے کہیں آگے لے جائے۔