صنف نازک ظلم و ستم کے بھنور میں

   

انسانیت سوزکٹھوعہ سانحہ اور ملک میں اس جیسے رونما ہو نے والےواقعات کے پس منظر میں

ہندوستان کی وزارت عظمی پر فائزہمیشہ سادہ لوح شہریوں کے دل موہ لینے کیلئے خوشنما اقوال وضع کر تے ہیں جیسے’’ سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس‘‘ اب اس میںایک اور جملہ کا اضافہ ہو گیا ہےاور وہ ہے’’سب کا وشواس‘‘ایک اور نعرہ بھی دیا تھااور وہ نعرہ’’بیٹی پڑھاو بیٹی بچاوٰ‘‘ہے ان اہم عنوانات پردھواں دھار تقاریر بھی کرتے ہیں جو ذرائع ابلاغ سے سارے شہریوں تک پہونچتے ہیںایک بڑے مفکر کا کہنا ہے’’جو کر تے ہیںبولتے کم ہیں اورجو بولتے زیادہ ہیں وہ کرتے کم ہیں‘‘اس ملک کے وزیراعظم پریہ پوری طرح صادق آتا ہے’’ سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس‘ اور سب کا وشواس‘‘ یہ خوشنما و حسین نعرےکہاں تک شرمندہ ٔ معنی ہو رہے ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتااور اس وقت یہ ہمارا موضوع سخن نہیں ہے۔ملک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں اس وقت’’ بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو‘‘ کا نعرہ زیر بحث ہے۔ذرائع ابلاغ سے پہونچنے والی خبریںشاہد ہیںکہ ملک کی بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کے اغوا ءاو ر عصمت ریزی کےاِکا دُکا واقعات منظر عام پر آیا کر تے تھےلیکن آئے دن ان سانحات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ انسان نمادرندوں پر اسقدر درندگی و حیوانیت طاری ہو گئی ہے کہ پھول جیسی معصوم کمسن بچیاںان کی شرمناک درندگی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیںویسےپورے ملک میںشرمناک درندگی کا کھیل کھیلا جارہا ہےلیکن پورے ملک میںاُتر پردیش کوشرمناک گھناؤنےجرائم میںنمایاں مقام حاصل ہے۔ہمارے جمہوری ملک میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ‘عصمت ریزی و قتل معصوم بچیوں کے ساتھ وحشیانہ درندگی و خون ریزی جیسے شرمناک سانحات روز کا معمول بن گئے ہیں اور اخبارات کی سرخیوں میں رہتے ہیںجوملک کی اخلاقی سطح سے گراوٹ کا پتہ دیتے ہیں، معصوم بچیاں و خواتین جو درندگی کا شکار ہورہی ہے

ان میں سےچند ایک سانحات پولیس تھانوں میں درج ہو پاتے ہیںجو ذرائع ابلاغ کی گرفت میں آتے ہیں۔اور جو درندگی کے واقعات مختلف وجوہات کی بناء درج نہیں کئے جاتےاُنکی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ہر تیس منٹ میںکم از کم چار خواتین اس کرب ناک عذاب سے گزاری جاتی ہیں۔ این سی آر بی کے پیش کر دہ اعداد و شماریہ بھی بتاتے ہیںکہ ۲۰۱۵؁ءمیں معصوم لڑکیوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی کے دس ہزار نو سو چونتیس(۱۰۹۳۴) واقعات درج ہوئےتھے ۔ صرف ایک سال بعدیعنی۶ ۲۰۱؁ءتک یہ واقعات بیس ہزار(۲۰,۰۰۰)تک ریکارڈ کئے گئے ہیںان میں کئی ایسے عصمت دری کے واقعات ہیںجن میںمعصوم لڑکیوں کو جنسی زیادتیوں کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا گیاان انسانیت سوز شرمناک سانحات میںبڑا غمناک و دردناک سانحہ کٹھوعہ عصمت ریزی و قتل کا ہے۔پندرہ صفحات کی چارج شیٹ کے مطابق آٹھ سالہ معصوم لڑکی کومورخہ ۱۰ /جنوری ۲۰۱۸ ؁غواء کیا گیااور ایک چھوٹے مندر میں اسے قید رکھا گیا چار دن تک نشہ آور ادویات اسکو دی جاتی رہیںاور کئی ایک درندے اس معصوم جان کے ساتھ حیوانیت کو بھی شرمسار کر نے والاشیطانیت کا ننگا ناچ ناچتے رہےپھر اس معصوم جان کے قتل و خون کا بھیانک جرم انجام دے کر جھاڑیوں میں اس کی نعش پھینک دی گئی اس جرم کے مرتکبین کو پنجاب کے پٹھان کوٹ کی خصوصی عدالت نے ۱۰ / جو ن۲۰۱۹ ؁اس کیس کا فیصلہ سنایااوراس گھناونے جرم کے آٹھ ملزمین کے منجملہ چھ کو اس مجرمانہ کیس میں قصوروارقرار دیا۔عدالت نے اس جرم کے سرغنہ سانجہی رام اور دیگر دومجرمین دیپک کھجوریہ اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی اور پچاس ہزار روپیے جرمانہ بھی عائد کیاسب انسپکٹر پولیس آنند دتہ، جموں و کشمیرہیڈ کانسٹبل تلک راج اور اسپیشل پولیس آفیسر سریندرورماکو جرم کے ثبوت مٹانے کے جرم میں پانچ سال قید اور پچاس ہزار روپیئے جرمانہ کی سزا سنائی۔پی آئی ٹی کے بموجب اصل سرغنہ سانجہی رام کے لڑکے وشال جاگوترا کوشبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا۔متاثر ہ لڑکی کے خاندان کی جانب سے عدالت میں نمائندگی کرنے والے مبین فاروقی نے بتایا کہ آٹھویں ملزم کے خلاف مقدمہ جوونائل کورٹ میں چلایا جاسکتا ہے

،چونکہ وہ قانوناً نابالغ ہے،انہوںنے یہ بھی کہا ہے کہ اس نابالغ ملزم نے معصوم بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا ۔ جموں و کشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے اس کیس میں آٹھ افرادکے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی جس میں ایک نا بالغ بھی شامل ہے اس نابالغ کی عمر کے تعین سے متعلق درخواست جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جانب سے سنی جانی باقی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس انسانیت سوز سانحہ کے مقدمہ کی پیروی کر نے والے وکلاء جس میں ایک غیر مسلم ایڈوکیٹ بہن بھی ہےکو اس کیس سے دستبرداری اختیار کرنے کیلئے ڈرایا دھمکایا گیایہ تمام وکلاء قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے اس کی پرواہ کئے بغیر معصوم مظلومہ کوانصاف دلانے کیلئے میدان میں ڈٹے رہے۔دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین ملزمین کو بچانے کی سازش میں لگے رہےہندو یکتا منچ نامی تنظیم نے ملزمین کی تائید میں ترنگا بردار جلوس نکالا۔جن میں نمایاں کردار ادا کر نے والےبی جے پی لیڈروں کے نام بھی شامل ہیں۔اس تناظر میں بی جے پی حکومت کے نعرہ’’بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو‘‘ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس کیس میں پٹھان کوٹ عدالت کا کردار قابل ستائش ہےکہ جس نےصرف سترہ ماہ کے اندرفیصلہ صادر کر کے انصاف رسانی میں تاخیر پر اکثر وبیشتر اٹھنے والے سوالات کو غلط ثابت کردیا۔الغرض اس طرح کے انسانیت سوز سانحات نے ہندوستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہےچند سال قبل نربھیا سانحہ کے بعد سخت ترین قوانین بنائے گئےتھےاس پر کہاں تک عمل آوری ہو سکی ہےملک کے دستور و قانون پر نظر رکھنے والے ہی بتا سکتے ہیںسخت قوانین کے باوجودنوجوان لڑکیوں کے علاوہ معصوم و نا بالغ بچیوں کے ساتھ ہونے والےدرندگی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہےانسانیت سوز جرائم کے مرتکب درندےکھلے عام ملک میں درندگی مچا رہے ہیں سخت قوانین انسانیت کو شرمسار کرنے والےان جرائم کے تدارک میںناکام کیوں ہیںاس پر حکومت وقانون کےذمہ داروں کوغور کرنا چاہئے۔ان قوانین میں اگر کوئی سقم ہو تو از سر نواس پر غور و خوض کر کےنمایاں تبدیلی لانا چاہئےتاکہ درندہ صفت مجرمین پر شکنجہ کسا جا سکےاور ملک سے جرائم کا خاتمہ ہو ۔ملک کےانصاف پسند سیکولر ذہن کے حامل سارے شہریوں کااحساس یہ ہےکہ اس فیصلہ کا خیر مقدم کئے جانے کے ساتھ ساتھ عدالت سے اس بات کی بھی درخواست کی جا نی چاہئے کہ ایسےانسانیت سوز جرائم کی سزا ’’قتل‘‘ ہو نی چاہئے ۔اس سے قبل ایسے واقعات میں سزائے موت کے فیصلے صادر کئے گئے ہیں۔چنانچہ دہلی میں ۲۰۱۲ ؁ءکے نربھیا اجتماعی عصمت ریزی و درندگی کے کیس میں مجرمین کو سزائے موت دی گئی تھی۔ممبئی کے شکتی میلز کے کمپاونڈمیں بائیس سالہ فوٹو جرنلسٹ خاتون کی اجتماعی عصمت ریزی کی گھناونی واردات میں بھی تین مرتکبین کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔اس کیس میں دو نا بالغ مجرمین کے حق میں تین سال قید کی سزا کا فیصلہ دیا گیا تھا اس کیس میںمجرمین صرف عصمت ریزی کے جرم کے مرتکب تھے نہ کہ قتل کے ۔ایسے فیصلےیقیناً انصاف کے عین مطابق ہیں۔ پھر وہ کیا وجوہات ہیںکہ کٹھوعہ عصمت ریزی و قتل کیس میں سزائے موت نہیں دی گئی اس پربھی غور و خوض کر نے اور دوبارہ قانونی اداروں سے رجوع کر نے کی ضرورت ہے۔اس کیس میں قانوناًنا بالغ لڑکے کو فی الوقت کو ئی سزا نہیں دی گئی یہ بھی قابل غور ہے۔ ہندوستان کے قانون نے لڑکے کے حق میں بلوغ کی عمر اکیس سال مانی ہے جو قابل اصلاح ہے۔اس پس منظر میں اسلام کا جو قانون ہے وہ ہر طرح قابل استناد ہے اسلامی احکامات کی روسے علامات بلوغ ظاہر ہو نے پرلڑکا ہو یا لڑکی بالغ مانے جائیں گے اور اگرعلامات بلوغ ظاہر نہ ہو ںتولڑکا او ر لڑکی ہر دوپندرہ سال کی عمر ہو جانے پر بالغ متصور ہونگے۔(ہدایہ کتاب الحجر)۔ امن و امان کے قیام میں زناوقتل وغیرہ جیسے جرائم میں اسلامی حدودوقصاص کے نفاذ کی دنیا میں بھر میں ضرورت ہے۔زنا کا ارتکاب کر نے والے غیر شادی شدہ ہو ںتو سو کوڑوں کی سزا(النور/۲)اور شادی شدہ ہوں تو رجم یعنی سنگسار کر نے کی سزا اسلام نے مقررکی ہے۔یہ سزاصحیح اور نہایت قوی احادیث پاک سے ثابت ہے۔ اس کے رواۃکی کثرت کی وجہ ان روایات کو تواتر کادرجہ حاصل ہے۔سیدناحضرت محمد مصطفےﷺ کے بعد خلفاء راشدین اورصحابہ رضی اللہ عنہ اجمعین کے عہد میںاس سزا کا نفاذ ہوتا رہا ہے۔تمام محدثین و فقہاء رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں۔ارشاد باری ہےاے عقل والو تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہےتاکہ تم (قتل کے جرم کے ارتکاب سے)بچ سکو۔اسلام نے جرائم پر جو سخت سزائیں تجویز کی ہے اس پر عمل آوری ہو نے لگے تومجرمین کے حوصلے پست ہو نگے۔مجرمانہ ذہنیت رکھنے والےبھیانک انجام سےڈر کر جرائم سے باز آجائیں گے۔ایک قاتل کا قتل ہزاروں معصوم و بے گناہ جانوں کی حفاظت کا سبب بن جائے گا۔مجرمین سے چشم پو شی جرائم کو بڑھاوا دینے کی وجہ بنے گی۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر جگہ ظلم و ستم اور قتل و خون کا بازار گرم ہے۔