ضد کا انجام

   

معین پور نامی گاؤں میں دو بکریاں رہتی تھیں ، وہ دونوں بہت اچھی سہلیاں تھیں ۔ ایک کا نام ’’ خوشی ‘‘ تھا تو دوسری کا نام ’’پائل ‘‘ ایک کا گھر جنگل کے اِس پار تھا تو دوسری کا جنگل کے اُس پار لیکن خوشی سے ملاقات کیلئے پائل جنگل کے اس پار جاتی تو کبھی خوشی جنگ کے اس پار آتی ۔
شیروں کے ڈر سے انہوں نے جنگل میں ایک خفیہ راستہ نکلا تھا یہ دونوں وہی سے آتی اور جاتی تھی ۔ یہ دونوں میں بہت محبت تھی ساتھ کھلیتیں ، اِدھر اُدھر گومتیں ، ہری ہری گھاس چیرتیں پھر آرام سے مل بیٹھ کر جگالی کیا کرتے … ایک دفعہ خوشی پائل کا انتظار کر رہی تھی اُس نے آنے میں آج بہت دیری کردی تھی خوشی ، پائل کیلئے فکر مند تھی [ دل ہی دل میں یہ سونچی جاتی کہ کیا وہ خیریت سے تو ہوگی ، کہی اس کو جنگل کے جانور … ؟؟ نہیں … نہیں … میں خود ہی اُس کے گھر جاتی ہو … یہ ٹھیک رہے گا ۔ بس وہ جنگل کی طرف بڑھ ہی رہتی تھی کہ اچانک خوشی کو وہاں سے پائل آتی ہوئی نظر آئی ، خوشی بے حد ناراضگی سے کہنے لگی … ’’ میں میں میں ‘‘ بھلا تم نے آج آنے میں اتنی دیر کیوں لا گادی ۔ ’’ میں میں میں ‘‘ میں کتنی پریشان تھی تمہارے لئے ، تم کو میری کوئی فکر نہیں رہتی ہیں ، پائل کہنے لگی ’’ میں میں میں ‘‘ خوشی بہن ‘‘ میرے پاؤں میں درد ہے اس لئے مجھے آنے میں دیر ہوگئی ۔ بھلا : اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے ؟ خوشی کہنے لگی ’’ میں میں میں ‘’ چھوڑوں پائل بہن یہ بہانے اب یہ تمہاری سزا ہیکہ اب تم واپس اپنے گھر جاو آج میرے یہاں تمہیں کھانے کو کچھ نہیں ، پائل کہنے لگی ’’ میں … ‘‘ خوشی بہن ضد نہ کرو میں اتنی تکلیف لیکر تمہارے پاس آئی ہوں کچھ تو خیال کرو ، لیکن خوشی اپنی ضد پر قائم تھی ، اور پائل گھر نہ جانے کی ضد لئے بیٹھی تھی … دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا ۔ نوبت یہاں تک آپہنچیں کہ ان دونوں کے سینگ سے سینگ ٹکرانے لگے دونوں کو چوٹیں آئی ۔ دونوں لڑتے لڑتے جنگل کی طرف جا پہنچے وہاں موجود جنگلی جانور ان دونوں کو بھوکی نگاہوں سے تاک رہئے تھے پھر کیا تھا جنگل کے جنگلی جانوروں نے خوشی اور پائل پر حملہ کیا دونوں زخمی ہوئی ۔ لیکن ایک رحم دل لڑکا جس کا نام ’’ آصف ‘‘ ہے وہ وہاں سے گذر رہا تھا اس نے خوشی او رپائل کو جنگی جانوروں کے چنگل سے آزاد کروایا اور اپنے گھر میں ان کی مرہم پٹی کی۔ جان بچی لاکھوں پائے خوشی اور پائل گلے لگ کر رونے لگی اور خدا کا شکر ادا کرنے لگی ۔ اور توبہ کی کہ ضد کرنا کتنا برا ہے اور دونوں نے عہد کیا کہ ہم کبھی ضد نہیں کرینگے ۔ کبھی جھگڑا نہیں کریں گے اور نہ ہی کبھی غلط بات پر لڑیں گے ۔ ہمیشہ پیار و محبت سے رہیں گے ۔
ثناء الماس باوزیر (ایم اے عثمانیہ )