طلاق ثلاثہ بل: غیر انسانی، مسلم خواتین مخالف اوروحشیانہ: ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

,

   

کہا خاندانوں اور مسلم معاشرہ کا شیرازہ بکھیرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں

حیدرآباد-ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلم ویمن بل 2018 (ٹرپل طلاق بل) کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے اُسے نقصاندہ، غیر انسانی، مخالف خواتین، وحشیانہ قرار دیا جس کا مقصد خاندانوں اور مسلم معاشرہ کا شیرازہ بکھیرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ڈاکٹر اسماء زہرہ چیف آرگنائزر ویمنس ونگ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آج میڈیا پلس آڈیٹوریم حیدرآباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں اس بل کی مخالفت کا اعلان کیا اور راجیہ سبھا کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ اس بل کا قانونی جائزہ لینے کے لئے اسے سلیکٹ کمیٹی کو روانہ کرے ۔

اس موقع پرڈاکٹر اسماء زہرہ’ چیف کوآرڈینیٹر ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، پروفیسر جمیل النساء رکن ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و سابق صدر شریعہ کونسل، ڈاکٹر تسنیم ایم احمد سابق صدر شریعہ کمیٹی، محترمہ تہنیت اطہر رکن ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و سابق صدر مسلم گرلز اسوسی ایشن، محترمہ رقیہ فرزانہ ایگزیکٹیو ممبر شریعہ کمیٹی، مسز اسماء ندیم سکریٹری مسلم ویمن ڈیولپمنٹ و آرگنائزنگ سکریٹری مسلم گرلز ایسوسی ایشن موجود تھیں۔

ڈاکٹر اسماء زہرہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیا تو پھر اس بل کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دراصل معاشرہ کی تقسیم کے لئے سیاسی اور فرقہ وارانہ مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے ۔

اس بل سے جو راجیہ سبھا میں 2؍جنوری کو دوبارہ پیش کیا جانے والا ہے ’ ازواجی تعلقات کو قطع کرنے والا اور بجائے خواتین کو خود اختیاری بنانے کے خاندانی نظام اور شادی کے نظام پر ضرب کاری ہے ۔ یہ بل خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے پیش کیا گیا ہے مگر اس کا مواد ا س کے مقصد کے خلاف ہے ۔ مسلم خواتین کو اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ’ بلکہ وہ بے سہارا لاوارث ہوجائے گی۔

اس کی حالت اور بھی بدتر ہوجائے گی۔ کسی بھی فوجداری مقدمہ میں مجسٹریٹ جو ضمانت کی منظوری کا فیصلہ کرتا ہے نہ کہ متاثرہ (دفعہ 7C) محض بیوی کے الزام پر شوہر کو جیل ہوگی جو فوجداری قانون کے خلاف ہے ۔ ڈاکٹر اسماء زہرہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس ملک میں مرد و خواتین کو شادی سے پہلے تعلقات ’ اور شادی شدہ جوڑوں کو ناجائز تعلقات حتیٰ کہ بیک وقت کئی جوڑوں میں تعلقات کی آزادی ہے ۔

دفعہ 377 کو جائز قرار دینا شخصی آزادی کی ایک مثال ہے تب مسلم مردوں کو طلاق کے لئے سزا کیوں دی جارہی ہے ۔ گھریلو تشدد سے تحفظ خواتین قانون 2005ء میں خواتین کو زیادہ اختیارات دے ئے گئے جہاں اپنے سسرالی گھر میں رہائش کا اختیار تھا۔ طلاق ثلاثہ بل غلطیوں کا پلندا ہے ۔

قانون سازوں نے عجلت میں کسی مشاورت کے بغیر اس بل کا مسودہ تیار کیا ہے ڈاکٹر اسماء زہرہ نے طلاق بدعت اور طلاق احسن کے لئے دو علیحدہ علیحدہ پیمانہ مقرر کرنے کے جواز کو چیالنج کرتے ہوئے سوال کیا کہ مطلقہ خواتین کے بچوں کی بہبود کے لئے انہیں کس کی تحویل میں دیا جائے گا۔ اس بل کی دفعہ 6کے تحت شادی شدہ خواتین کو اپنے نابالغ بچوں اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار دیا جائے گا۔ یہ حق مساوات کے منافی ہے ۔

اور یہ بچوں کے حقوق کے خلاف ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ نے ایک بار پھر اپنے اس موف کا اظہار کیا ہے کہ بیک وقت تین طلاق طلاق کا معیاری طریقہ نہیں ہے اور جو ایسا کرتے ہیں ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے ۔