طلاق ثلاثہ کی جہدکار خستہ حال مسلم خواتین انتخابات میں نظرانداز

   

تین طلاق کو جرم قرار دینا مسئلہ کا حل نہیں ۔ مہیلا کانگریس کی صدر کا بیان
کولکتہ ۔ /14 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) طلاق ثلاثہ بل بی جے پی کا سب سے بڑا انتخابی نعرہ ہے اور بی جے پی اس بل کی قانون سازی کرکے مسلمان اقلیت کے ایک بڑے حصے کا دل جیتنے کی مقدور بھر کوشش کررہی ہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے طلاق ثلاثہ پر عمل آوری کی جدوجہد کی قیادت کی تھی اب وہ اپنی بقا کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں جاری کردہ اپنے انتخابی منشور میں بی جے پی نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ بیک وقت تین طلاق کے طریقہ اور حلالہ کو ختم کرکے رہے گی اگر اسے دوبارہ اقتدار حاصل ہوجائے ۔ مہیلا مورچہ کی قومی صدر وجئے راہتکار نے کہا کہ مودی حکومت کی طلاق ثلاثہ بل کی پارلیمان سے منظور کروانے کی کوشش یقیناً اس کے لئے لوک سبھا انتخابات میں مثبت نتائج کی حامل ہوں گی ۔ سپریم کورٹ نے 2017 ء میں ایسے فقیدالمثال فیصلے میں طلاق ثلاثہ کے عمل کو ’’کالعدم‘’ اور ’’غیردستوری‘‘ قرار دے دیا ۔ اپریل 2015 ء کو عشرت جہاں کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی ۔ عشرت جہاں اپنے دو بچوں کے ساتھ اب ہوڑہ ضلع میں رہتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ میں گزربسر کے لئے سخت جدوجہد کررہی ہوں۔ میرے پاس اپنے بچوں کو اسکول روانہ کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہے ۔ فی الحال میں مالی امداد کے لئے اپنے رشتہ داروں پر منحصر ہوں ۔ عشرت جہاں نے 2018 ء میں بی جے پی میں شرکت کی شروع شروع میں انہیں بنگال میں بی جے پی کا ’’اقلیتی چہرہ‘‘ تصور کئے جانے کی امید تھی اور یہ چہ میگوئیاں بھی تھیں کہ ریاست مغربی بنگال کی لوک سبھا امیدواروں کی فہرست میں ان کا بھی نام ہوگا ۔ تاہم انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا جب ان سے پوچھا گیا آیا بی جے پی قائدین نے ان سے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے دریافت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ حالات بدل چکے ہیں ۔ ا

ب میں پارٹی سے رابطہ میں نہیں ہوں ۔ بعض اوقات میں پارٹی کے اجلاسوں میں جاتی ہوں ۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے ۔ مگر شاعرہ بانو اور عطیہ صابری کی کہانی اس سے مختلف ہے ۔ یہ دونوں سخت خراب مالیاتی حالت کے دباؤ میں ہیں ۔ ان دونوں کے طلاق حاصل کردہ شوہر ان کی کوئی مدد نہیں کرتے ۔ بانو کے بھائی ارشد نے جو اترپردیش میں رہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ’’بانو کا اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے ۔ ہم ان کی ہرممکنہ حد تک مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صابری کے بھائی کا نام رضوان ہے ۔ رضوان اترکھنڈ کے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے افراد چاہتے ہیں کہ عدالت یہ معاملہ فوری نمٹادے ۔ انہوں نے ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ اس کیس کو جلدی نمٹنے پر وہ غور کریں ۔ رضوان نے کہا کہ ’’میری بہن بھی ساتھ رہتی ہے وہ میرے خاندان کا حصہ ہے ۔ ہمیں کوئی مالیاتی امداد نہیں چاہئیے ۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ فوری ختم ہوجائے ۔ آل انڈیا مہیلا کانگریس کی صدر سشمیتا نے زوردے کر کہا کہ طلاق ثلاثہ بل خواتین کو بااختیار نہیں بناتا ۔ طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔انہوں نے سوال کیا کہ ’’کس طرح یہ بل مسلمان عورتوں کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے ؟ مطلق عورتوں کے شوہروں کو سزاء دینا ان کے لئے مالی امداد کی ضمانت کس طرح ہوسکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ مسلمان خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں تو آپ کو ان کے لئے کوئی مناسب ذریعہ معاش فراہم کرنا ہوگا ۔