طلبا کی جدوجہد اور حکومت

   

دیوانے چل پڑے ہیں تیرے شہر کی طرف
حیرانیوں کو آئینہ ساماں کئے ہوئے
طلبا کی جدوجہد اور حکومت
کسی بھی ملک اور سماج میں طلبا کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔طلبا اور نوجوانوں کو ملک کا مستقبل کہا جاتا ہے ۔ کسی بھی تحریک یا جدوجہد کی کامیابی طلبا ہی کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ ٓج سارے ہندوستان میں طلبا اورنوجوان ایک بار پھر سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور مرکز کی نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں اور اس کے اقدامات کے خلاف زبردست جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنارکرنے میں بھی انہیں طلبا اورنوجوانوں کا اہم رول ہوگا ۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی و این پی آر کے خلاف طلبا نے جو جدوجہد کی ہے اس نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے ۔ ملک کا شائد ہی کوئی شہر ایسا ہوگا جہاںطلبا کی تائید میںمظاہرہ نہ ہو رہے ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھنے والی یہ تحریک مسلسل عوامی تائید حاصل کرتی جا رہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بھی اس تحریک کے خلاف سی اے اے اور این آر سی کے حق میں عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے جدوجہدکرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کیلئے بی جے پی کی جانب سے فون پر تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اطلاعات میں کہا جا رہا ہے کہ سڑکوں پر بی جے پی کے کارکن جتھوں کی شکل میں جمع ہوتے ہوئے زبردستی عوام سے دستخطیں حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک طرح سے حکومت کی جانب سے شکست کا اعتراف ہے ۔ حکومت کی جانب سے جس طرح سے کوششیں کی جا رہی ہیںاور طلبا کی تائید کو کچلنے کیلئے بھی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح سے طاقت کا استعمال ملک کے نوجوانوں اور طلبا کے خلاف کیا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ اسی طرح طلبا کو نشانہ بناتے ہوئے گولیاں داغی جا رہی ہیں۔ اب تک اس احتجاج کے نتیجہ میںکئی اموات بھی واقع ہوگئی ہیں۔ حکومت نہ صرف طلبا کو نشانہ بنانے پر اکتفاء کر رہی ہے بلکہ نقاب پوش غنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے بھی طلبا میںڈر و خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کی مثال جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے لی جاسکتی ہے جہاں نقاب پوش غنڈوں نے گھس کر پرامن طلبا کو مار پیٹ کی اور انہیںزخمی بھی کردیا گیا اور انہیںدواخانوں میں شریک کیا گیا تھا ۔
طلبا کی جانب سے احتجاج میں حکومت کی ساری کوششوں کے نتیجہ میں بھی شدت کم نہیں ہو رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جواہر لال نہرو طلبا کی جانب سے آج راشٹرپتی بھون تک مارچ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ پولیس نے اس مارچ کو بھی کامیاب ہو نے نہیںدیا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پھر بعد میں ان کی رہائی عمل میں آئی ۔ ملک کے کئی شہروں میں طلبا اورنوجوانوں کے علاوہ خواتین نے بھی احتجاج کاسلسلہ شروع کردیا ہے ۔حیدرآباد میںتاریخ ساز ملین مارچ کا اہتمام کیا گیا ۔ بنگلورو میں ریلی منعقد کی گئی تھی ۔ گلبرگہ میں بڑا احتجاج ہوا ۔ ممبئی میںاحتجاج کیا گیا ۔ دہلی کے شاہین باغ میں تین ہفتوں سے زیادہ وقت سے احتجاج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ مغربی بنگال میں چیف منسٹر ممتابنرجی کی قیادت میں احتجاج چل رہا ہے ۔ ممتابنرجی خود سڑکوںپر اتر کر احتجاج کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ طلبا کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے ۔ ملک کی تعلیم یافتہ نسل کو ملک کے مسائل سمجھ میںآنے لگے ہیں اور اب یہ نوجوان نسل ان مسائل پرا پنا موقف اختیار کرنے بھی لگی ہے اوریہی بات ملک کیلئے خوش آئند کہی جاسکتی ہے ۔ نوجوان اور طلبا برادری اگر کسی مسئلہ پر اپنے موقف کو واضح کرتے ہیں تو اس سے ملک کے دوسروں طبقات اور عوام کی رہنمائی ہوتی ہے ۔ طلبا کے موقف کو دیکھتے ہوئے ملک کے عوام بھی اپنے موقف کے تعلق سے کوئی فیصلہ قطعیت کے ساتھ کرسکتے ہیں۔
مرکزی حکومت کا جہاں تک رویہ ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ وہ خود ملک کے نوجوانوںاور طلبا کے خلاف طاقت کے استعمال میں یقین کر رہی ہے ۔ حکومت گولیاں داغنے اور ان طلبا پر نقاب پوش غنڈوں کے ذریعہ حملے کروانے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہے ۔ حکومت کو کچلنے کیلئے ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے اور جائیدادیں فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ پہلی بار ہے کہ حکومت احتجاجیوںسے بدلہ اور انتقام لینے کی بات کر رہی ہے ۔ ایسا آزاد ہندوستان کی تاریخ میںپہلے کبھی نہیںہوا تھا ۔ حکومت مان چکی ہے کہ صرف طاقت کے استعمال کے ذریعہ عوام کی آواز کو دبایا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ ملک کے نوجوان اور طلبا اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں۔