عالمی مالیاتی مارکٹ میں بحران

   

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
عالمی مالیاتی مارکٹ میں بحران
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت اور بحرین کے علاوہ دیگر ملکوں میں لاکھوں ہندوستانی ملازمت کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اگر یکلخت روزگار سے محروم ہوجائے تو ان پر قیامت صغریٰ گذرے گی۔ کوروناوائرس نے آج ساری دنیا میں انسانی زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ مالیہ منجمد ہورہا ہے۔ ضروری اشیاء کی قلت اور ادویات کی کمی نے ایک کے بعد ایک مسئلہ کو جنم دینا شروع کیا ہے۔ کورونا وائرس کا اصل مرکز چین اور اس کے تیزی سے پھیلنے والے شہروں میں سے ایک ووہان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 4958 ہوگئی اور لاکھوں لوگ متاثر بتائے گئے۔ اب اس شہر کی معمول کی زندگی بحال ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ چین میں یہ وائرس جنوری میں پھوٹ پڑا اور ڈھائی ماہ کے دوران چین کی حکومت نے کورونا وائرس کا ڈٹ کر سامنا کیا اور مرنے والوں کی تعداد کو کم کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کئے۔ چین کے بعد اٹلی، ایران شدید متاثر ہیں۔ یہاں اموات بھی زیادہ ہو ئی ہیں۔ امریکہ میں اس وائرس کی دہشت اس قدر پیدا ہوئی ہے کہ کئی ریاستوں میں لوگوں نے خود کو گھروں میں بند کرلیا۔ سڑکیں سنسان، مارکٹس ویران ہوگئے۔ نیویارک دنیا کا سب سے اول سیاحتی مقام مانا جاتا ہے۔ اب یہ شہر خالی دکھائی دے رہا ہے لیکن اصل مسئلہ خلیجی ملکوں میں مقیم ہندوستانی ورکرس کا ہے جو کوروناوائرس کی وجہ سے ہندوستان واپس بھیج دیئے جارہے ہیں یا وہ خود واپس ہورہے ہیں۔ کوروناوائرس کے باعث سعودی عرب نے یوروپی یونین سمیت 12 نئے ممالک پر سفری پابندی عائد کردی ہے۔ عمرہ زائرین اور ویزٹ ویزے پر آنے والوں کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حکومت ہند کو اس تعلق سے فوری کارروائی کرتے ہوئے واپس ہونے والے ہندوستانیوں کیلئیپروازوں کا انتظام کر نے اور زائد فلائیٹس چلا نے کو کہا ہے۔ کوروناوائرس کے باعث سعودی حکومت نے عارضی طور پر اپنے شہریوں اور غیرملکی مقیم افراد کے سفر پر پابندی لگادی ہے۔ عالمی صحت تنظیم نے کوروناوائرس کو عالمی وباء قرار دیا ہے جس کے بعد ہی ساری دنیا میں احتیاطی اقدامات میں شدت پیدا ہوگئی۔ ہندوستان میں اس وائرس پر قابو پانے کیلئے حکومت ہند کو مؤثر کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کورونا وائرس کو عالمی وباء قرار دینا اس بات کا ثبوت ہیکہ اب دنیا کا کوئی ملک اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔ کورونا وائرس بظاہر اس قدر جان لیوا نہیں ہے بشرطیکہ اس کا علاج وقت پر کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں ساری دنیا کو اس سے زیادہ خطرناک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پلیگ، ہیضہ، طاعون، ٹی بی، کینسر کے خلاف لڑنے کی دوائیں تیار کی جاچکی ہیں اب کوروناوائرس کا بھی ویکسن ایجاد کیا جائے تو یہ وائرس بھی ختم ہوجائے گا اس سے بڑھ کر صفائی کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے۔ ماضی میں جن وبا سے لاکھوں عوام لقمہ اجل بن چکے ہیں ان کی دوائیں تیار کرلی گئی تھیں تو پھر کورونا وائرس کے خلاف بھی ویکسن تیار کرنے کیلئے کئی ملکوں نے اقدامات کئے ہیں اور فنڈس بھی مختص کئے جانے لگے ہیں۔ اس وبا میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ مالیاتی بحران بھی پیدا ہوا ہے۔ ساری دنیا میں اسٹاک مارکٹ بری طرح نیچے گر چکا ہے۔ ہندوستان میں ہی کورونا وائرس کی وجہ سے شیئرمارکٹ میں چار دنوںکے دوران 18 لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ ہندوستانی عوام جوکہ اس قدر نقصان کو برداشت نہیں کرتے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ شیئر مارکٹ پر قابو پانے کے متبادل انتظامات کرے۔ دیگر حلقوں میں اسٹاک مارکٹس گراوٹ کا شکار ہیں لیکن یہاں کی حکومتوں نے انتظامات بھی شروع کئے ہیں اور کوروناوائرس سے نمٹنے کیلئے بھاری رقومات بھی جمع کئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا سے ملنے والی رپورٹس سے پتہ چلتا ہیکہ ان ملکوں نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسن کی تیاری اور عوام کو وائرس سے بچانے کیلئے کھربوں ڈالر مختص کئے ہیں۔ اصل مسئلہ ہندوستان جیسے ملکوں کا ہے یہاں کی حکومت صرف ہندو مسلم کے تناظر میں حکومت کرتے ہوئے عوام کا بھاری نقصان کررہی ہے۔ اسٹاک مارکٹ میں دن بہ دن کروڑہا روپئے ڈوب رہے ہیں۔ عالمی معاشی صورتحال بھی ابتر ہے۔ مالیاتی مارکٹوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہیکہ اس وائرس نے ساری دنیا کو صدمہ سے دوچار کردیا ہے۔ تاہم عوام کو اس وباء سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ چین میں وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے تو دھیرے دھیرے ساری دنیا میں بھی وائرس کا خاتمہ ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کانگریس کو خوداحتسابی کا مشورہ
کانگریس کو اپنی پے در پے ناکامیوں اور داخلی خرابیوں کا احتساب کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ریاستی اسمبلی میں یہ بھی کہا تھاکہ اگر کانگریس اپنے گریباں میں نہیں جھانکے گی تو ایک دن وہ تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ کانگریس ایک قومی پارٹی ہے ہر دور میں سیاسی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن اس مرتبہ کانگریس کا زوال اور اس کے کام کرنے کے طور طریقہ نے پارٹی کو کھوکھلا کردیا ہے۔ پارٹی کی قیادت نے داخلی خرابیوں یا اپنی فیصلہ سازی کی قوت میں کمی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی کسی بھی پارٹی کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں مضبوط رہتی ہے جس نے سخت ہوم ورک کیا ہو لیکن کانگریس قیادت ہوم ورک اور آفس ورک دونوں میں کمزور دکھائی دے رہی ہے نتیجہ میں مدھیہ پردیش میں سیاسی بحران، جیوترادتیہ سندھیا کا استعفیٰ ان قائدین میں ناراضگی جیسے واقعات رونما ہونے لگے۔ کسی بھی پارٹی کو دوسری پارٹی کا لیڈر دیانتداری سے مشورہ نہیں دیتا لیکن صدر ٹی آر ایس چندرشیکھر راؤ نے ایوان اسمبلی میں کانگریس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کانگریس کو تزکیہ کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ کانگریس قائدین بطور اپوزیشن ایوان اسمبلی میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے ہوم ورک نہیں کررہے۔ کسی مسئلہ پرحکومت کی توجہ دلانے کیلئے ضروری ہیکہ اس مسئلہ کی باریکیوں کو سمجھنے اور اس پر معلومات اکھٹا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ایوان پہنچنے والے کانگریس قائدین بغیر تیاری کے کرسیوں پر بیٹھ کر ہر مسئلہ کو نشانہ بناتے ہیں اور خود نشانہ بن رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپوزیشن کو سمجھایا ہے تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ویسے عوام کا خط اعتماد جس کے پاس ہوتا ہے وہ اس کو عقل آہی جاتی ہے چاہے وہ درست ہو یا غیر درست اس کی بات میں وزن ہوتا ہے۔ کانگریس بھی اس سے واقف ضرور ہے لیکن بطور اپوزیشن اسے کیا تیاری کر نی ہے اس کا خیال نہ رکھنے سے مشورہ، تنقیدیں اور طنزیہ ریمارک بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔