عتیق احمد کی دیورایہ جیل پر حکومت تھی‘ آنے والوں کی میزبانی اور لوگوں کی خواہش کے مطابق ان کا کام ہوتاتھا۔

,

   

نئی دہلی۔ پچھلے بیس سالوں میں طاقتور عتیق احمد نے دیواریہ جیل میں اپنی سلطنت قائم کرلی تھی۔

تحقیقات کرنے والی پولیس نے انکشاف کیاہے کہ اپنے نمبر سات قید خانہ میں وہ لوگوں سے جب چاہے تب ملاقات کرتا تھا اور بی جے پی رکن اسمبلی راجو پال کے قتل کے گواہوں کو دھمکانے کے لئے موبائیل فون کا بھی استعمال کیاکرتاتھا۔

تمام باتیں اس وقت منظرعام پر ائیں جب 26ڈسمبر کے روز ایک صنعت کار کو عتیق کے لوگوں نے اغوا کرکے دیواریہ جیل کر ائے جہاں پر اس کو عتیق کے ساتھ تین گھنٹوں تک اس کے قید خانہ میں رکھا گیا اور اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی جائیداد کو عتیق احمد کے نام منتقل کرنے والے دستاویزات پر دستخط کرے۔

پولیس تحقیقات میںیہ بات بھی سامنے ائی ہے کہ احمد نے جیل ریکارڈس سے ان تین گھنٹوں کے سی سی ٹی فوٹیج کو کامیابی کے ساتھ ہٹا دیاہے ‘ جس کے نتیجے میں شک کے دائرے میں آنے والے جیل کے سینئر حکام کو برطرف کردیاگیا اور آدھی رات کو پیرکے روز عتیق احمد بریلی جیل منتقل کردیا گیا۔

پولیس نے اب تک اس کیس کی گتھی نہیں سلجھائی ہے جس میں بی ایس پی ایم ایل اے راجوپال کے قتل میں عینی شاہد امیش پال کو احمد کے قریبی نے فون پر جیل سے پچھلے ماہ دھمکی دی ہے‘ اس پر ایک ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور احمد سے اس معاملے میں تفتیش ہوگی۔

رکن اسمبلی کے احمد اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل کے چودہ سال گذر نے کے بعد اب بھی تازہ طریقے سے سی بی ائی اس کی جانچ کررہی ہے۔

ہائی کورٹ نے چار سال قبل اسی کیس میں احمد کی ضمانت کو منسوخ کردیاتھا ۔ عتیق احمد دوبارہ اس وقت سرخیوں میںآیاتھا جب پھلپور لوک سبھا سیٹ پر پچھلے سال ہوئے ضمنی الیکشن میں جیل سے ہی اس نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیاتھا۔

اقتدار میںآنے کے بعد بی جے پی کی حکومت نے عتیق احمد کے اثر کو کم کرنے کے لئے اس کو اپنے نشانے پر رکھا ہے۔اپنے آبائی الہ آباد کی نینی جیل سے عتیق احمد کو 4اپریل2017کو ریاست اترپردیش کے وزیراعلی کی حیثیت سے یوگی ادتیہ ناتھ کا جائزہ لینے کے فوری بعد دیواریہ جیل منتقل کیاگیاتھا ۔

اس کے بعد آلہ اباد ہائی کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے احمد نے اپنی منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی جس کو عدالت نے مستر د کردیاتھا