عدلیہ اور حکومت

   

ذرا بھی خوف نہیں گردشِ زماں کا ہمیں
فلک ہے سرپہ ہمارے سدا سے سایہ فگن
ہندوستان میں جہاں بے شمار دستوری اور جمہوری اداروں پر حکومت نے اپنا کنٹرول اور تسلط قائم کرلیا ہے وہیں آج بھی ملک کی عدلیہ کے تعلق سے عوام کا مجموعی تاثریہی ہے کہ عدلیہ پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوسکتا ۔ ملک کی عدلیہ آزاد ہے ۔ قانون اور دستور کے مطابق فیصلے صادر کرتی ہے اور دستور و قانون کی بالادستی کی ذمہ داری عدلیہ کی جانب سے بخوبی نبھائی جا رہی ہے ۔ ملک کے پچھڑے اور کمزور ترین طبقات سے لے کر اعلی ترین عہدوں پر فائز افراد تک بھی عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور عدلیہ سے انصاف کا یقین رکھتے ہیں۔ عدلیہ نے وقفہ وقفہ سے اپنے فیصلوں اور ریمارکس کے ذریعہ عوام کے اعتماد کو برقرار رکھا ہے ۔ عدلیہ کی کارکردگی پر ملک کا ہر شہری ایقان رکھتا ہے ۔ ایسے میں اگر حکومت کی جانب سے ہی عدلیہ پر بالواسطہ طور پر تنقید کی جائے یا کچھ ایسے تبصرے کئے جائیں جو عدلیہ کے خلاف جاتے ہوں تو یہ عدلیہ کا وقار متاثر کرنے کی کوشش کہے جاسکتے ہیں۔ عدلیہ پر عوام کا جو ایقان اور یقین کامل ہے وہ حکومت کے تبصروں اور مخالفانہ ریمارکس سے متزلزل ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتی احکام کی پابندی کرتے ہوئے عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا جائے ۔ عدلیہ کی عزت و احترام کو برقرار رکھا جائے ۔ اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدلیہ کے تعلق سے ایسے ریمارکس کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے جن سے عدلیہ پر منفی اثرات مرتب ہونے کے اندیشے ہوں۔ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتوں کے بلوں کو منظوری دینے کیلئے ریاستی گورنرس اور صدر جمہوریہ ہند کیلئے مدت کا تعین کردیا گیا تھا ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کی کچھ ریاستوں کے گورنرس کے حالیہ اقدامات کے خلاف دیا گیا تھا اور اس میں صدر جمہوریہ کو بھی شامل کرتے ہوئے بلوں کی منظوری پر فیصلے کرنے کیلئے مہلت کا تعین کردیا گیا تھا ۔ اس فیصلے پر ملک کے نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ سوپر پارلیمنٹ کی طرح کام کرنے لگا ہے ۔ انہوں نے عدلیہ اور ججس کے اختیارات کو ایک طرح سے نیوکلئیر پاور تک قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔
نائب صدر جمہوریہ نے کس تناظر میں یہ ریمارکس کئے ہیں اور ان کا پس منظر کیا رہا ہے اس کی وضاحت تو وہ خود ہی کرسکتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں دستور سب سے افضل اور سب سے بالاتر ہے ۔ کوئی بھی عہدہ ہو دستور اور قانون کے تابع ہی ہے اور دستور کی بالادستی کو یقینی بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ ملک میں جتنے بھی ادارے ہیں وہ سب دستور کی رو سے قائم کئے گئے ہیں اور دستور کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ملک کی عدلیہ بھی اسی سمت میں کام کرتی ہے اور عوام کو انصاف دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا وہ کسی فرد کے خلاف یا کسی عہدہ کے خلاف نہیں تھا بلکہ عدالت نے اپنے فیصلے سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی کہ عوام مسائل کی یکسوئی میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے اور سرکاری کام کاج کسی رکاوٹ کے بغیر بہتر اورموثر انداز میں چلایا جاسکے ۔ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاستوں کے کام کاج کو بھی موثر ڈھنگ سے چلائے جانے میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے ۔ گورنرس ریاستوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کی بھی دستوری ذمہ داریاں ہیں ۔ اگر کچھ گورنرس سیاسی وابستگی کا خیال کرتے ہوئے عوام کے ووٹوں سے منتخب ریاستی حکومتوں کے کام کا ج میںرکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں یہ جمہوریت سے مذاق کے مترادف ہے ۔ ٹاملناڈو اور کچھ دوسری ریاستوں کے گورنرس ریاستی حکومت کے منظورہ بلز کو روک رہے تھے اور اس پس منظر میں ہی عدالت نے فیصلہ سنایا تھا ۔
مرکزی حکومت ہو یا دوسرے عہدوں پر فائز افراد ہوں سبھی کو دستور کے مطابق کام کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ دستوری حدود سے کوئی بھی تجاوز نہیں کرسکتا ۔ عدالتیں بھی دستور کے دائرہ میں کام کر رہی ہیں۔ حکومت کے وزراء اور کچھ دوسرے ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے جن سے عدلیہ کا وقار متاثر ہونے لگے یا پھر عدلیہ کے کام کاج پر سوال پیدا ہونے لگیں۔ جمہوریت کے جو ذمہ دار ستون اور ادارے ہیں ان کے استحکام کیلئے سبھی گوشوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے اور دستور و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے معاملے میں کسی تردد کا شکار بھی نہیں ہونا چاہئے ۔