ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
ماہِ ربیع المنور کی مناسبت رحمت عالم، نورمجسم، فخرموجودات، نبی کریم ﷺ سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے مختصر سی تحریر پیش کی جارہی ہے۔ جیسا کہ بزرگان دین کا قول ہے : ’’ مَنْ اَحَبَّ شَیْأً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ‘‘ ترجمہ: جس چیز سے جو محبت کرتا ہے، اکثر اُسی کا تذکرہ کرتا ہے‘‘۔
حضور اکرم ﷺ کا مبارک ذکر خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار کیا ہے۔ جب مبارک زلفوں کا ذکر کرنا ہو تو فرمایا: ’’وَالضُّحٰى وَاللَّيْلِ‘‘۔ عمر مبارک کے متعلق فرمانا ہو تو ذکر ہوا ’’ لعمرک‘‘۔ شہر کے متعلق ارشادِ باری ہوا ’ لَآ اُقْسِمُ بِـهٰذَا الْبَلَدِ‘‘۔ آپ ﷺ کا مقام تو اتنا بلند ہے کہ لکھنے اور بولنے والوں کی زبان ادب سے گونگی ہوجاتی ہے۔ تاہم نبی ﷺکے ایک عاشق و غلام کیلئے اپنے آقا کا ذکر جمیل کرنا ایک سعادت مندی کی بات ہوتی ہے۔
عظمتِ نبی ﷺ : شاید آپ نے کبھی غور کیا ہوگا کہ دنیا میں بڑے سے بڑے رہنما، خطیب، عالم،حافظ، شاعر گزرے ہیں، مگر اِن سب کی زندگیوں کے بارے میں معلوم کیا جائے تو ایک ہی بات سب کے سب میں یکساں نظر آتی ہے، وہ یہی ہے کہ اِن میں سے ہر ایک کی وفات کے بعد لوگوں نے یہی کہا ہے کہ مرحوم نے بہت کچھ کیا ہے، مگر زندگی نے وفا نہ کی، ورنہ یہ اپنے ہنر و فن میں بہت آگے بڑھ جاتے۔ پوری کائنات میں ایک ہی شخصیت و ہستی ایسی ہے کہ جس نے اپنے ہوش و حواس میں دن کے وقت، اپنے متعلقین (صحابہ عظام رضی اﷲ عنہم اجمعین) کی محفل میں یہ اعلان کیا کہ ’’ائے لوگو! دنیا میں جس مقصد کیلئے مجھے میرے پروردگار نے بھیجا ہے، کیا میں نے اُس مقصد کو پورا کردیا؟ سبھی لوگوں نے کہا ہے کہ آپ نے سچ فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے اﷲ! تو گواہ رہنا‘‘۔ یہ ہمارے آقا ﷺ کا ایسا کمال تھا کہ اِس کمال میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔
ہمارے نبی ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ایک جامع عنوان ہے۔ ہر عنوان پر کئی کئی کتابیں لکھی گئیں، لکھی جارہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی، مگر کسی ایک عنوان کا بھی حق اب تک نہ ادا ہوا، نہ ہو رہا ہے اور نہ ہوگا۔
جسم مبارک: آپ ﷺ سر تا پا نور ہے۔ اور آپ کا جسم بھی بڑا ملایم نرم و نازک تھا۔ صحابیٔ رسول حضرت انس رضی اﷲعنہ نے فرمایا کہ ’’میں نے ریشم کو بھی چھویا اور آپ ﷺ کے جسم مبارک کو بھی چھویا۔ بس اِس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے محبوب ﷺ کا جسم، ریشم سے زیادہ نرم ہے۔ (مفہوم حدیث، عن انسؓ، صحیح بخاری شریف)
صبیح و ملیح : آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میرے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام تو ’’صبیح‘‘ تھے اور میں ’’ملیح‘‘ ہوں۔ ’’صبیح یا صباحت، اگر چہرے پر سفیدی غالب ہو تو اُسے کہتے ہیں۔ اور ’’ملیح یا ملاحت، اُس کو کہتے ہیں جب صورت کو دیکھا جائے تو اُس کا نقش دل میں اثر کرجائے‘‘۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میں ملیح ہوں‘‘۔
لعابِ مبارک : آپ ﷺ کے میں اتنی تاثیر تھی کہ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت سیدنا علی رضی اﷲعنہ کی آنکھ میں درد شروع ہوگیاتو آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک اُن کی آنکھوں پر لگایا، آنکھیں ٹھیک ہوگئیں‘‘۔ (مفہوم حدیث،عن سہل بن سعدؓ، صحیح بخاری شریف)
پسینۂ مبارک : حضور ﷺ کے پسینۂ مبارک میں اتنی خوشبو تھی کہ جب کبھی صحابہ آپ کو تلاش کیلئے نکلتے تو فرماتے کہ راستے کی خوشبو سونگھ کر بتادیا جاتا ہے کہ نبی اِس راستے سے گزرے ہیں۔
(مفہوم حدیث،عن جابرؓ، دارمی)
لمسِ دستِ اقدس : رسول کے دست اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی۔
(مفہوم حدیث،عن ابی سعید الخدریؓ، طبرانی، المعجم الکبیر)