عقل … علم کا سرچشمہ ہے

   

اللہ تعالی نے انسان کو جو ذرائع علم بخشے ہیں، وہ یہ ہیں: (۱) حواس (۲) عقل (۳) وجدان (اشراق) (۴) ضمیر اور (۵) وحی۔ ان تمام ذرائع سے انسان کو علم حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع صرف ’عقل‘ ہے، جو ایک بہت بڑا ذریعہ علم ہے۔ عقل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حضرت حارث بن اسد فرماتے ہیں کہ ’’عقل ایک قوت ہے، جس سے آدمی نظری علوم کے ادراک کے لئے تیار ہوتا ہے‘‘۔ گویا عقل ایک نور ہے، جو دل میں ڈالا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آدمی ادراک کے قابل ہوجاتا ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’عقل، علم کا سرچشمہ ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی: ’’اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انھیں وہی سمجھتے ہیں جو اہل علم ہیں‘‘ (العنکبوت۔۴۳) سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر عقل درخت ہے تو علم اس کا ثمر ہے، اگر عقل آفتاب ہے تو علم اس کی روشنی ہے۔
قرآن حکیم میں بار بار عقل کے حوالے سے دعوت فکر دی گئی ہے اور ہمیں قرآن میں جگہ جگہ ’’افلا یعقلون، لعلکم تعقلون، افلم تکونوا تعقلون، لآیات لقوم یعقلون، افلا یتدبرون القراٰن، افلم یدبروا القول‘‘ کے الفاظ اور فقرے ملتے ہیں۔ نیز قرآن میں قلب کے حوالے سے جو دعوت فکر دی گئی ہے، وہ بھی دراصل عقل ہی کے حوالے سے دعوت فکر ہے۔ مثلاً فرمایا: ’’ان کے دل ہیں یہ ان سے سمجھ نہیں رہے ہیں‘‘۔ یہاں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ قرآن پاک عام محاورہ کے مطابق ’’قلب‘‘ کو ذہن کے معنی میں استعمال کرتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہن و فکر کا تعلق دماغ سے ہے، دل سے نہیں۔ یہی معاملہ ’’اطمینان قلب‘‘ کا ہے، جس سے ذہن کی یکسوئی مراد ہوتی ہے۔
اسلام نے غور و فکر، تعقل و تدبر اور سوجھ بوجھ کی دعوت دی ہے۔ اپنی تمام تعلیمات میں عقلی توجیہات کو مدنظر رکھا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انسان کو وہم و گمان کی تاریکیوں میں بھٹکتا نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ علم و نظر کی روشنی میں چلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ نامعقولیت کو پسند نہیں کرتا، اس کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر تعلیم حکمت اور عقل و دانش سے معمور ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ کی تعلیم حکمت سے معمور ہے، بلکہ آپﷺ نے حکمت کو مؤمن کی گمشدہ چیز قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکمت و دانائی، عقل اور فکر و نظر کی بات تمھیں جہاں بھی ملے، اسے لے لو، وہ کوئی بیگانی چیز نہیں، تمہاری ہی گمشدہ چیز ہے۔ اس طرح حکمت، فکر و نظر، عقل و فہم اور غور و تدبر کا ہر دروازہ آپﷺ نے اپنی امت پر کھول دیا ہے۔
مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام پہاڑ کی طرف تیز تیز قدموں سے دوڑے جا رہے تھے۔ آپ کے ایک امتی نے پکارکر کہا: ’’اے خدا کے رسول! آپ خوف زدہ سے کہیں تشریف لے جا رہے ہیں؟ آپ کے تعاقب میں کوئی دشمن بھی نظر نہیں آرہا ہے‘‘۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں احمق سے بھاگ رہا ہوں اور اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہوں‘‘۔ امتی نے عرض کیا: ’’کیا آپ وہ مسیحا نہیں ہیں، جن کی برکت سے اندھا بینا اور بہرا سامع ہو جاتا ہے؟‘‘۔ حضرت نے فرمایا: ’’لیکن حماقت (بے عقلی) کی بیماری قہر خداوندی ہے، جب کہ اندھا ہونا قہر نہیں آزمائش ہے اور آزمائش ایسی بیماری ہے، جو اللہ کی رحمت لاتی ہے اور بے عقلی ایسی بیماری ہے، جو زحمت لاتی ہے اور زخم دے جاتی ہے‘‘۔ یہ حکایت بیان کرنے کے بعد مولانا روم فرماتے ہیں: ’’بے عقلوں سے دور بھاگو، جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے ان سے گریز اختیار کیا تھا۔ بے عقل کی دوستی اور صحبت سے بڑی خونریزی ہوتی ہے، دین و دنیا دونوں ہی کا خون ہوتا ہے‘‘۔ پھر مولانا روم ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جس طرح ہوا پانی کو آہستہ آہستہ خشک کردیتی ہے، اسی طرح بے عقل تمہاری عقل کے نور کے سوتوں کو آہستہ آہستہ خشک کرکے تمھیں احمق بنادے گا‘‘۔عقل کی قدر کرنا چاہئے اور اللہ تعالی سے اس کی حفاظت کی دعا کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ اس سے آدمی حق و باطل اور صحیح و غلط میں امتیاز کرسکتا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کے قابل ہے کہ عقل کم و بیش ہر جاندار کو ملی ہے، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کے پاس بھی عقل ہے، لیکن بارگاہ خداوندی سے جو عقل انسان کو ملی ہے۔ وہ کسی اور مخلوق کو نہیں ملی اور اسی عقل کی وجہ سے زمین اور آسمانوں کی ہر چیز اس کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ نے تمہارے لئے زمین اور آسمانوں کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے‘‘۔ لیکن عقل کی اس فراوانی کے باوجود یہ کوئی ضروری نہیں کہ عقل ہر معاملے میں صحیح فیصلہ کرسکے، صحیح اور حتمی فیصلہ تو بس ’’وحی‘‘ کا ہی ہوتا ہے۔
عقل کی کمی بیشی یا کسی اور وجہ سے انسان بعض اوقات غلط نتیجہ بھی اخذ کرلیتا ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے عقلی تفاوت کی بڑی اچھی مثال بیان فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ایک شخص بیٹھا کاغذ پر کچھ لکھ رہا ہے۔ ایک چیونٹی آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اک نوک قلم ہے، جو حرکت کر رہی ہے اور اس سے تحریر وجود میں آرہی ہے۔ وہ اپنی عقل کے مطابق تحریر کا خالق نوکِ قلم کو قرار دیتی ہے۔ پھر ایک اور چیونٹی آتی ہے، جس کی عقل پہلی چیونٹی سے زیادہ ہے، وہ مشاہدہ کے بعد کہتی ہے: دراصل قلم حرکت کر رہا ہے، جس کی وجہ سے نوک قلم کو حرکت ہو رہی ہے اور تحریر وجود میں آرہی ہے، لہذا تحریر کا خالق نوکِ قلم نہیں، بلکہ قلم ہے۔ پھر ایک اور چیونٹی آتی ہے، جس کی عقل پہلی اور دوسری چیونٹی سے زیادہ ہے۔ وہ مشاہدہ کے بعد کہتی ہے: تحریر کا خالق دراصل ہاتھ ہے، کیونکہ قلم ایک ہاتھ میں ہے۔ ہاتھ حرکت کر رہا ہے، جس کی وجہ سے قلم متحرک ہو رہا ہے اور قلم کی وجہ سے نوک قلم حرکت کر رہی ہے اور اس کی وجہ سے تحریر وجود میں آرہی ہے۔ پھر ایک اور چیونٹی آتی ہے، جس کی عقل ان تمام چیونٹیوں سے زیادہ ہے۔ وہ مشاہدہ کے بعد کہتی ہے: تحریر کا اصل خالق ایک شخص ہے۔ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے ہاتھ کو حرکت دے رہا ہے اور ہاتھ کی وجہ سے قلم حرکت میں آیا ہے اور قلم کی وجہ سے نوک قلم حرکت کر رہی ہے اور یوں تحریر وجود میں آرہی ہے‘‘۔ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ ’’یہ چوتھی چیونٹی صحیح نتیجہ پر پہنچی ہے‘‘۔ وہ عقل جو صحیح نتیجہ پر پہنچاتی ہے، اس کو ’’لُب‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی جمع ’’الباب‘‘ ہے اور قرآن کی زبان میں ’’اولوالالباب‘‘ سے مراد یہی صحیح فکر رکھنے والے لوگ ہیں۔ عقل رہنمائی تو کرتی ہے، لیکن منزل تک نہیں پہنچاتی، منزل پر صرف ’’وحی‘‘ پہنچاتی ہے۔ (اقتباس)