سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لڑکی کا عقیقہ والد کے ذمہ ہے یا اسکے ننیال کے ذمہ یا لڑکی کی والدہ کے ذمہ ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : باپ کیلئے مستحب یہ ہے کہ نومولود کا نام اور عقیقہ ساتویں دن کرے۔ یہ امر واجب نہیں کہ کسی کے ذمہ ہو۔ جیسا کہ رد المحتار جلد ۵ کتاب الأضحیہ میں ہے یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم اسبوعہ و یحلق رأسہ و یتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعر فضۃ أو ذھباً ثم یعق عند الحلق عقیقۃ اباحۃ علی ما فی الجامع المحبوبی أو تطوعاً علی ما فی شرح الطحاوی اور فتاوی عالمگیری جلد ۵ ص ۳۶۲ میں ہے العقیقۃ مباحۃ لا سنۃ ولا واجبۃ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
غزوہ ٔاُحد اور صحابہ کرام ؓکی جاں نثاری
حضور ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر مبارک اٹھارہ برس کی تھی خوبرو جوان صحابی ہیں، نئی نئی شادی ہوئی، شادی کی پہلی رات ہے، صبح کا وقت ہوا، غسل کی حالت میں ہیں، کان میں آواز پہنچی، الجہاد، حضور ﷺکا حکم ہے کہ جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے سنا فوراً سوچ میں پڑ گئے۔ حضور ﷺبلا رہے ہیں اب غسل کروں کہ حضور ﷺکے حکم کی تعمیل کروں۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے دل سے پوچھا کیا کیا جائے غسل کریں کہ حضور ﷺ کے حکم پر پہنچیں۔ فیصلہ یہی کیا کہ جسم کی پلیدی کی طرف مت دیکھو۔ حضور ﷺکے حکم کی طرف دیکھو۔ سب کچھ اللہ کے سپرد۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اگر محبوب ﷺ کے حکم میں تاخیر ہوگئی تو سب کچھ ختم۔ حضرت حنظلہ ؓ فوراً گھر سے نکلے۔ حضور ﷺکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بغیر غسل کے ہی جاکر لشکر میں شامل ہوگئے۔ حضرت حنظلہ ؓنے میدان اُحد میں بڑے بہادری کے کارنامے سرانجام دیئے۔ بالآخر حضرت حنظلہ ؓ شہید ہوگئے۔ ادھر رب تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا میرے محبوب کا غلام آرہا ہے اس کو دنیا کے پانی سے نہیں حوض کوثر کے پانی سے غسل دو۔جب غزوہ احد اختتام پذیر ہوا حضور ﷺ نے حکم دیا شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کیں لیکن حضرت حنظلہ ؓکی لاش نہیں ملی۔ حضور نبی اکرم ﷺکی نظر اُٹھی فرمایا : حنظلہ ؓکی لاش کو زمین پر تلاش کرنے والو! فرشتے اسے حوض کوثر پر غسل دے رہے ہیں۔ جب حضرت حنظلہؓ کی لاش زمین پر آئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا حضرت حنظلہؓ کے بالوں سے پانی کے قطرات موتیوں کی طرح ٹپک رہے ہیں۔ اسی واسطے حضرت حنظلہؓ کو ’غسیل الملائکہ ‘ کہا جاتا ہے جن کو فرشتوں نے غسل دیا ہے۔
احد کا واقعہ بڑا نازک اور دلخراش ہے۔ میدان اُحد میں بڑا نقصان ہوا۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان امام الانبیاء ﷺکا زخمی ہونا۔ دوسرا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور تیسرا ۷۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے۔ تمام محدثین اور تمام دنیا کے فاتحین نے جب غزوہ احد پر نظر ڈالی کہ یہ نقصان کیوں ہوئے تو یہ راز سامنے آیا کہ آقا علیہ السلام کے حکم سے خطاء اجتہادی کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جان بوجھ کر حضور ؐکا حکم نہیں توڑا۔ اس اجتہادی لغزش پر طعن و ملامت کی گنجائش نہیں بلکہ مجتہدین نے فرمایا اجتہادی خطاء پر بھی ایک درجہ ثواب ملتا ہے۔ حضور ﷺ کا حکم تھا اس دُرے پر کھڑے رہنا جب تک میں نہ کہوں نیچے نہ اُترنا۔ ابتدائی جنگ میں جب دشمن بھاگ گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہوجائے تو نیچے اُتر جائیں کوئی خطرہ نہیں یہ سمجھ کر وہ دُرے سے نیچے اُترے اور دشمن نے حملہ کر دیا۔اس سے ہمیں اطاعت امیر کا سبق ملتا ہے جس میں کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔