علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کویڈ19کے حملے کے تحت

,

   

مذکورہ کیمپس صحرا میں تبدیل ہوگیا ہے اور یہاں پر کوئی کلاسیس نہیں چل رہے ہیں
اگرہ۔ برسرخدمات اور ریٹائرڈ عملے کے 40سے زائد کے علاوہ متعدد غیر تدریسی عملے کے لوگوں علی گرھ مسلم یونیورسٹی میں ہر روزکویڈ19سے متاثر ہورہے ہیں‘ متاثرین کے گراف میں بدستور اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

چند د ن قبل وائس چانسلر طارق منصور کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوا ہے۔ ہفتہ کے روز لاء کے فیکلٹی کا انتقال ہوگیاہے۔ بڑی تعداد میں عملے کے لوگ اے ایم یو کے جواہرلال نہرو میڈیکل کالج اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

سماجی جہدکار پروفیسر جسیم محمد نے ائی اے این ایس کو بتایاکہ”مذکورہ یونیورسٹی انتظامیہ ناکام ہوگیاہے‘ مذکورہ میڈیکل کالج کا نظام تباہ ہوگیاہے۔ مذکورہ وی سی آکسیجن کی استفسار کرنے کی بھی زحمت نہیں کررہے ہیں۔

کسی بھی شعبہ سے انہوں نے مدد کی گوہار نہیں لگائی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اگلے ایک ایک ماہ میں مزیدایک سو سے زائد لوگوں کی موت ہوسکتی ہے‘ اگر حالات میں سدھار نہیں لایاگیاتو مرنے والوں کی تعداد 100تک جاسکتی ہے“۔تعداد بہت نہیں ہے مگر یونیورسٹی کے عہدیدار حقیقی تعداد بتانے سے گریز کررہے ہیں۔

مذکورہ کیمپس صحرا میں تبدیل ہوگیا ہے اور یہاں پر کوئی کلاسیس نہیں چل رہے ہیں۔یونیورسٹی کے ایک اہلکارذیشان نے کہاکہ ہاسٹل میں رہنے والے زیادہ تر لوگ جاچکے ہیں۔متعدد فیکلٹی ممبرس علی گڑھ چھوڑ چکے ہیں۔

ایک رکن جو فی الحال تاملناڈو میں ہے نے ائی اے این ایس سے کہاکہ”بڑے پیمانے پر وباء اپنے پیر پھیلنے کے ساتھ یہاں پر ذہنی بریک ڈاؤن بھی ہے۔مایوسی اور ایک بڑی حد تک نفرت بھی ہے“۔

ریٹائرڈ ممبرس جنھوں نے عل گڑھ چھوڑ دیاہے اپنے آبائی مقامی جیسے بھوپال اور حیدرآباد میں فوت ہوگئے ہیں۔ ایک آرٹی ائی کے ذریعہ جسیم نے وی سی سے ایک حساس جانکاری حاصل کی ہے۔

انہوں نے وی سی سے ادوایات‘ آکسیجن‘ ایمبولنس وغیرہ کی قلت کے متعلق استفسار کیاتھا۔ مقامیوں کا الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ تمام وسائل کے باوجود خاموشی کی نیند سورہا ہے۔ کوئی خصوصی میکانزمم اور انتظامیہ نہیں کئے گئے ہیں۔

وباء کے خوف سے لوگ ٹیکہ کے لئے میڈیکل جانے سے گریز کررہے ہیں۔ ایک مقامی اسٹوڈنٹ نے کہاکہ ”خوف کا ماحول ہے۔ مرکزی حکومت کو حالت پر قابو پانے کیلئے مداخلت کرنا چاہئے“۔

اب تک اس کا جانکاری نہیں ملی ہے کہ ٹیکہ لگانے والے کتنے لوگ مرنے والوں میں شامل ہیں‘ حالانکہ بڑے پیمانے پر یہ بات تسلیم کی جارہی ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر کویڈ کے اثرات اور عمر کی وجہہ سے اموات ہوئے ہیں۔

ضلع انتظامیہ کے بموجب 8مئی کے روز417نئے معاملات تھے جس میں سے 295کو ڈسچارج کیاگیاہے۔

مقامی میڈیکل سرکلس نے تصدیق کی ہے کہ حالات نہایت چوکسی اختیار کرنے والے ہیں