پڑوسی ملک پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر حملہ کیا گیا ۔ حالانکہ یہ حملہ جان لیوا ثابت نہیں ہوا لیکن کہا جا رہا ہے کہ یہ عمران خان کو ہلاک کرنے کی کوشش ہی تھی کہ ان پر فائرنگ کردی گئی ۔عمران خان حکومت کے خلاف اپنے لانگ مارچ کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ ہجوم میں سے دو افراد نے ان پر فائرنگ کردی ۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے پیر میں گولی لگی ہے اور وہ زخمی ہیں۔ صدر پاکستان عارف علوی نے اسے عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ خود تحریک انصاف پارٹی کے قائدین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان کو ختم کرنے کی کوشش تھی جبکہ ایک حملہ آور جسے گرفتار کرلیا گیا ہے اس کا بھی دعوی ہے کہ وہ لوگ عمران خان کو ختم کرنے کیلئے ہی آئے تھے کیونکہ وہ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جس وقت سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ وزارت عظمی سے معزول کیا گیا ہے اسی وقت سے ان کے تعلق سے کئی اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ کچھ گوشوں کا تاثر تھا کہ انہیں مقدمات میںماخوذ کرتے ہوئے جیل بھیجا جاسکتا ہے ۔ کچھ گوشوں کا کہنا تھا کہ انہیں حملہ کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ کچھ کا کہنا تھا کہ انہیں گھر پرنظربند کیا جاسکتا ہے ۔ خود عمران خان نے بھی کئی مرتبہ اپنی سکیوریٹی اور سلامتی کے تعلق سے اندیشے ظاہر کئے تھے ۔ تحریک انصاف پارٹی کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو عوام سڑکوں پر اتر آئیں گے ۔ تاہم اب ان پر حملہ ہوگیا اور کہا جا رہا ہے کہ وہ زخمی ہوئے ہیں تاہم یہ زخم مہلک یا جان لیوا نہیںہیں۔ ان کے پیر میں گولیاں لگی ہیں۔ یہ حملہ در اصل پاکستان میں لا قانونیت کی دلیل کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت اور نفاذ قانون کی جو ایجنسیاں ہیں وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں طاقت کی زبان چلائی جا رہی ہے ۔ لوگ قانون یا حکومت کی بالادستی کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتے ۔ جہاں تک حکمران طبقہ کا تعلق ہے تو وہ خود بھی اس تعلق سے سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔ حکمران طبقہ کو خود اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے اور وہ طاقتور حلقوںکو اپنے مخالف کرنے سے گھبراتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں جس طرح سے معاشی حالات انتہائی ابتر ہیں اسی طرح سے وہاں نظم و قانون کی صورتحال بھی ابتر ہی دکھائی دیتی ہے ۔ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے اور حالات کو سدھارنے میں ناکام ہے تو وہ نظم و قانون کے مسئلہ پر بھی کامیاب نظر نہیں آتی ۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاسی قائدین کو حملوں کا نشانہ بنانے کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ عبادتگاہوں کو تک بھی نہیں بخشتے اور وہاں بھی حملے کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی اسی طرح ایک ریلی میں قتل کردیا گیا تھا ۔ 2007 میں بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا تھا اور حیرت اس بات پر ہے کہ اس کیس کی اب تک یکسوئی نہیں ہوسکی ہے اور یہ طئے نہیں ہوسکا کہ سابق وزیر اعظم کے قاتل کون ہیں۔ یہی وہ لا قانونیت ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ انہیں قانون اور عدالت کا کوئی خوف نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے ۔ اسی طرح سیاستدان بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی آج صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ بھرے بازار میں بم دھماکے کئے جاتے ہیں۔ مساجد و دیگر عبادتگاہوں کو خون آلود کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ساری صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ وہاں کوئی حالات کو بہتر بنانے کیلئے فکر مند ہی نظر نہیں آتا اور نہ ہی قانون اور قانون کی بالادستی کو کوئی یقینی بنانے کیلئے آگے آتا ہے ۔
عمران خان پر قاتلانہ حملہ در اصل اسی لا قانونیت کی ایک اور دلیل ہے ۔ اس طرح کے حملے پاکستان کی حقیقی صورتحال کو ساری دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس طرح کے حملوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں جس طرح سے عوام محفوظ نہیں ہیں اور ان کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اسی طرح سیاستدان بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے ۔ ان پر بھی کسی بھی وقت جان لیوا حملے ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان میں اس طرح کی صورتحال کا تدارک نہیں کیا گیا تو حالات اور بھی دگرگوں ہوسکتے ہیں اور عالمی سطح پر پہلے ہی سے پاکستان کی جو شبیہہ متاثر ہے وہ اور بھی داغدار ہوسکتی ہے ۔ اس صورتحال کو سمجھنے کی اور وہںا حقیقی معنوں میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔