عوام کو بے وقوف بناتی ہے حکومت

   

پی چدمبرم
ہندوستان کی معیشت زراعت پر مبنی ہے اور ہمارے معاشرہ میں کسانوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ کسان اناج اُگاکر اسے مقامی تاجرین، بازاروں، سرکاری ایجنسیوں ، انجمن امداد باہمی اور پراسسنگ یونٹس تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح غذائی اشیاء صارفین تک پہنچ پاتی ہیں۔ لیکن حالیہ عرصہ کے دوران یہ دیکھا گیا ہیکہ کسان حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں کافی پریشان ہوئے ہیں لیکن مودی حکومت اس تعلق سے انکار کرتی ہے کہ وہ کسان دشمن ہے۔ بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت مسلسل عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے مجھے ایک ایسا ڈیٹا حاصل ہوا ہے (اگرچہ کے یہ پرانا ڈیٹا ہے) اور یہ ڈیٹا مجھے نیشنل سامپل سروے سے حاصل ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ کسان اپنی پیداوار مختلف ایجنسیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ جہاں تک دھان کی فروخت کا سوال ہے 65.94 فیصد پیداوار مقامی خانگی تاجرین کو فروخت کی جاتی ہیں جبکہ منڈیوں یا بازاروں میں 19.46 دھان کی فروخت عمل میں آتی ہے۔ اسی طرح سرکاری ایجنسیوں یا امدادی باہمی کی انجمنوں کو 9.49 فیصد دھان فروخت کی جاتی ہے جبکہ پروسیسرس کو دی جانے والی دھان کی مقدار 1.70 ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار جولائی تا دسمبر 2012 یا جنوری تا جون 2013 کے دوران فروخت کئے گئے اناج سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر اس مدت کے دوران کسانوں نے مقامی خانگی تاجرین کو 58.42 فیصد گیہوں کی پیداوار فروخت کی جبکہ منڈیوں کو 34.78 سرکاری ایجنسیوں اور امداد باہمی کی انجمنوں کو 6.79 فیصد اور پروسیسر کو 0.27 گیہوں کی پیداوار فروخت کی گئی۔

ڈیٹا میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس مدت کے دوران مقامی خانگی تاجروں کو مکئی کی 69.21 فیصد بازاروں یا منڈیوں کو 29.66 فیصد، سرکاری ایجنسیوں اور امداد باہمی کی انجمنوں کو 0.56 فیصد اور پروسیسر کو 0.28 فیصد مکئی کی پیداوار فروخت کی گئی۔ ہندوستان میں سرسوں کی بھی کافی اہمیت ہے اور لوگ بڑے شوق سے اسے استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی مدت کے دوران سرسوں کی 54.61 فیصد پیداوار مقامی خانگی تاجرین کو فروخت کی گئی جبکہ 45.83 فیصد کی منڈیوں کو فروخت عمل میں آئی، 0.44 فیصد سرکاری ایجنسیوں اور امداد باہمی کی انجمنوں نے خریدی کی جبکہ پروسیسر کے معاملہ میں یہ 0.22 فیصد رہی۔ چنا ہندوستان میں ایک اہم غذائی اجناس میں شامل ہے۔ چنے کی 52.82 فیصد پیداوار مقامی خانگی تاجر کو 46.80 پیداوار، منڈیوں کو 0.38 فیصد پیداوار، سرکاری ایجنسیوں یا امداد باہمی کی انجمنوں کو فروخت کی گئی۔ اب آتے ہیں سویا بین کی طرف۔ سویا بین کی 52.15 فیصد مقامی خانگی تاجرین کو فروخت عمل میں آئی۔ منڈیوں کو 46.72 فیصد فروخت کی گئی۔ سرکاری ایجنسیوں یا امداد باہمی کی انجمنوں کو 1.36 فیصد پیداوار فروخت کی گئی۔ پروسیسر کے معاملہ میں یہ 0.11 فیصد رہی۔ ہندوستان میں کسان اُڈت دال بڑے پیمانے پر پیدا کی جاتی ہے اور کسان 73.96 فیصد اُڈت مقامی تاجرین کو فروخت کئے ہیں، جبکہ اسی مدت کے دوران منڈیوں کو 25.45 فیصد، کسی سرکاری ایجنسی یا انجمن امداد باہمی کو 0.80 فیصد اُڈت فروخت کی گئی۔ ہندوستان میں ارہر بھی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ مذکورہ مدت کے دوران 50.78 فیصد پیداوار مقامی خانگی تاجرین کو 47.88 فیصد، منڈیوں کو 0.22 فیصد سرکاری ایجنسی یا انجمن امداد باہمی کو فروخت کی گئی۔ مونگ پھلی کی 65.75 فیصد پیداوار مقامی خانگی تاجرین کو، 27.83 فیصد منڈیوں کو، 3.82 فیصد کسی سرکاری ایجنسی یا انجمن امداد باہمی کو فروخت کی گئی۔

اس کے باوجود مختلف ریاستوں کے زرعی پیداوار سے متعلق مارکٹ کمیٹیوں کے قوانین پر چند دہوں سے عمل کیا جارہا ہے۔ اکثر کسان اپنی پیداوار مقامی خانگی تاجرین کو فروخت کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں دھان اور گیہوں کی صورت میں تقریباً 60 فیصد کسان اس زمرہ میں آتے ہیں۔ سرکاری ڈیٹا میں بتایا گیا کہ صرف 1.24 کروڑ دھان کے کسان (2019-20 میں) اور 43.35 لاکھ گیہوں کے کسان یعنی گیہوں پیداوار کرنے والے کسانوں نے (2020-21 میں) ایم ایس پی سے استفادہ کیا۔

اے پی ایم سی : فوائد اور نقصانات
اس کی یقینا کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے یہ کہ 85 فیصد کسان کم اراضیات کے حامل ہوتے ہیں یعنی ایک ہیکٹر سے بھی کم اراضی ان کے پاس ہوتی ہے اور فاضل پیداوار فروخت کرنے کے لئے اس طرح کے کسانوں کے یہاں بہت کم فاضل پیداوار باقی رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی اے پی ایم سی مارکٹ یارڈس معاشی لحاظ سے ایک قابل قبول امکان نہیں ہے۔ اس پیداوار کو تھیلوں میں بھرنے یعنی بیکنگ، گاڑیوں میں سوار کرنے یعنی لوڈنگ، حمل و نقل اور اے پی ایم سی پر اناج کے چند تھیلوں کو اتارنے، فیس کی ادائیگی اور اندرون دو یوم قیمت کی وصولی چھوٹے کسانوں کے دسترس سے باہر ہے۔ مقامی تاجر ایک ایسا شراکت دار ہوتا ہے جس پر انحصار کیا جاسکتا ہے اور جو کھیت یا کسان کے دروازے پر پیداوار کی خرید کرتا ہے اور یکمشت قیمت ادا کرتا ہے چاہے قیمت ایم ایس پی سے کم کیوں نہ ہو۔

اے پی ایم سی مارکٹ یارڈس تاہم پنجاب اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں ایک اہم کردار کے حامل ہیں جہاں بازار کے قابل فاضل اناج کثیر مقدار میں ہوتا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں دھان اور گیہوں کی جو پیداوار ہوتی ہے اس میں سے 75 فیصد پیداوار سرکاری ایجنسیاں خریدتی ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں بعض اسکالرس کے مطابق مارکٹ یارڈس کی تعداد مناسب نہیں ہے اور یہ یارڈس کسانوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ مثال کے طور پر تاملناڈو جہاں 36 اضلاع میں 283 مارکٹ یارڈس ہیں۔ اس کامطلب فی ضلع اوسطاً 8 مارکٹ یارڈس پائے جاتے ہیں۔ 2019-20 میں جملہ کاروبار صرف 129.76 کروڑ روپے تھا۔ اسی طرح ریاست مہاراشٹرا میں 326 مارکٹ یارڈس ہیں اور ان مارکٹ یارڈس تک پہنچنے کے لئے ایک کسان کو اوسطاً 25 کیلو میٹر کا سفر کرنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اے پی ایم سی قوانین زرعی پیداوار کی آزادانہ تجارت کو روکتے ہیں لیکن مارکٹ یارڈس حفاظتی جال کے طور پر کام کرتے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں مارکٹ یارڈ سے جو فیس جمع کی جاتی ہے وہ قابل لحاظ حد تک ریاست کے مالیہ میں اہم حصہ ادا کرتی ہے جس کا زرعی اور دیہی انفرااسٹرکچر کے فروغ پر انحصار کیا جاتا ہے۔

کانگریس کا انتخابی منشور بمقابلہ بی جے پی کے بلز
مذکورہ وجوہات کے باعث ہی کانگریس نے اپنے 2019 کے انتخابی منشور میں کسانوں کی بازاروں تک بہ آسانی رسائی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسان پیداوار کنندہ کمپنیوں؍ تنظیموں کے فروغ اور ان پٹ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مارکٹس تک ان کی رسائی کے علاوہ مناسب و موزوں بنیادی سہولتوں کے ساتھ کسان مارکٹس کے قیام کا وعدہ کیا بڑے گاؤں اور چھوٹے ٹاؤنس میں کسانوں کو ان کی پیداوار فراخدلانہ مارکٹ میں لانے کے قابل بنانا بھی اس کا مقصد تھا۔ کانگریس کے انتخابی منشور کی روح دراصل ملک میں ہزاروں مارکٹس قائم کرنا تھا۔ اس قسم کی مارکٹ یا بازار ریاستی حکومتیں، مقامی پنچایت، ایک انجمن امداد باہمی یا خانگی لائسنس آپریٹر قائم کرسکتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بازار میں ہر لین دین ایک ایسی قیمت پر مبنی ہوگا جو کسی بھی طرح ایم ایس پی سے کم نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس مودی حکومت نے ایم ایس پی کے محفوظ جال کو کمزور کیا اور سرکاری خریدی کو متاثر کردیا۔ کسان آج سڑکوں پر اس لئے احتجاج کررہے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ ایم ایس پی اس طرح کے اقدام سے ختم ہو جائے گی۔ ریاستی حکومتیں اس لئے فکرمند ہیں کہ سرکاری خریداری اور نظام تقسیم عامہ خطرہ میں پڑ جائیں گے۔ ایک مرتبہ جب غذائی سلامتی کے تین ستون خطرہ میں آجائیں تو پھر غذائی سلامتی سے متعلق قومی قانون 2013 خود بخود ناکام ہو جائے گا۔ مودی حکومت کے قوانین ہزاروں متبادل مارکٹس تیار نہیں کرتے بلکہ وہ کنٹراکٹ فارمنگ کی اجازت دیں گی۔ ساتھ ہی صنعتی گھرانوں کے داخلے کے لئے دروازے کھول دیں گے۔ اس قسم کے طاقتور خریداروں کے خلاف چھوٹے اور متوسط کسان نہیں ٹھہر پائیں گے۔ مودی حکومت کے قوانین سے کسان تباہ ہوں گے۔