عوام کو راحت کیوں نہیں ؟

   

آسماں سے اُتارا گیا
زندگی دے کے مارا گیا
عوام کو راحت کیوں نہیں ؟
عالمی سطح پر جاری معاشی سست روی اور انحطا ط کی وجہ سے بیشتر ممالک پریشانیوں کا شکار ہیں اور ہندوستان کو بھی اس سے استثنی حاصل نہیں ہے ۔ یہاں معاشی سست روی نے عوام کو کئی مشکلات کا شکار کردیا ہے ۔ تجارت متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ مارکٹوں کا انتہائی برا حال ہے ۔ اسٹاک مارکٹ میں گراوٹ آگئی ہے ۔ سرمایہ کاروں کا لاکھوں کروڑ روپیہ نقصان ہوگیا ہے اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت کو صرف اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہے اور عوام کو راحت پہونچانے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ حکومت کے حالیہ جو اقدامات ہیں ان سے اپوزیشن کے الزامات درست نظر آتے ہیں کہ نریندرمودی حکومت نے عوام کو حالات کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور وہ عوام پر صرف بوجھ عائد کرتے ہوئے اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتنے پر انہیں مجبور کر رہی ہے ۔ عوام کو راحت پہونچانے سے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ وقتوں میں بین الاقوامی مارکٹوںمیں تیل کی قیمتوںمیں بھاری گراوٹ آئی ہے ۔ فی بیاریل خام تیل کی قیمت 40 تا 50 ڈالرس تک گرگئی ہے اس کے باوجود مودی حکومت اس کا فائدہ عوام کو پہونچانے تیار نہیں ہے بلکہ پٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر تین روپئے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے اس عارضی اور جزوی راحت سے بھی عوام کو محروم کردیا ہے اور اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس اضافہ کے ذریعہ پٹرولیم اشیا کا کاروبار کرنے والے کارپوریٹس طبقہ کو بھی ان کے خزانے بھرنے میں مدد کی جا رہی ہے ۔ کارپوریٹس کو جہاں بینکوں سے لاکھوں کروڑ روپئے قرض فراہم کئے جا رہے ہیں وہیں جب یہ قرض واپس نہیں ہوپا رہے تو اس کا بوجھ بھی راست یا بالواسطہ طور پر عوام ہی پر منتقل کیا جا رہا ہے ۔ عوام کو اپنی خود کی رقومات سے محروم کیا جا رہا ہے اور جو جزوی اور عارضی راحت پٹرول قیمتوں میں کمی سے ہوسکتی تھی اس سے بھی محروم کردیا گیا ہے ۔تیل کی قیمتوں کو عالمی منڈی سے جوڑتے ہوئے حکومت نے کہا تھا کہ قیمتوں میں کمی ہوگی تو راحت عوام کو ہی ملے گی لیکن جب کبھی ایسا ہوسکتا ہے حکومت اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ کر رہی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نریندر مودی حکومت نے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچانے سے گریز کیا ہو۔ چند ماہ قبل بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی جب عالمی منڈی اور بازاروں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ آئی تھی ۔ اس وقت بھی حکومت نے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے خزانے بھرے تھے بلکہ ان ہی رقومات کو کارپوریٹس کو قرض جاری کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا ۔ ایک ملک ایک ٹیکس کا نعرہ دیتے ہوئے غلط انداز میں جی ایس ٹی نافذ کرنے والی مرکزی حکومت پٹرولیم اشیا کو جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لانے تیار نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو مارکٹ کے اتار چڑھاو کی راحت راست عوام کو مل سکتی ہے ۔ حکومت دوسری اشیا کو تو جی ایس ٹی کے تحت لانے میں مصروف ہے ۔ ادویات تک نہیں بخشا گیا ہے ۔ دودھ کو بھی اس کے دائرہ کار میں لادیا گیا ہے لیکن اپنے خزانے بھرنے اور اپنے ہمنوا اور حواری کارپوریٹس کو فائدہ پہونچانے کیلئے پٹرولیم اشیا کو جی ایس ٹی کے دائرہ میں لانے کیلئے مرکز کی نریندرمودی حکومت تیار نہیں ہے ۔ وہ راست یا بالواسطہ طور پر عوام پر ہی بوجھ عائد کرنے میں یقین رکھتی ہے ۔اپوزیشن جماعتیں بھی اس مسئلہ پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا تو رہی ہیںلیکن اپوزیشن کی صفوں میں بھی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے یا عوام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نظر نہیں آتی اور جو مخالفت کی جا رہی ہے وہ محض ضابطہ کی تکمیل ہی کہی جاسکتی ہے ۔
ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستان میں معاشی سست روی کا دور چل رہا ہے ۔ کاروبار اور تجارت بری طرح متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ مارکٹوں کی حالت اتھل پتھل کی وجہ سے انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ سرمایہ کار پریشان ہیں۔ عوام کو مہنگائی کی مار کھانی پڑ رہی ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ دودھ اور ادویات جیسی بنیادی اور اہم ضروریات بھی عوام کی رسائی سے باہر ہوتی جا رہی ہیںحکومت کو چاہئے تھا کہ وہ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہونچا دیتی ۔ عوام کو مہنگائی سے قدرے راحت ملتی ۔ اس کے علاوہ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی لائی جاسکتی تھی اور عوام کو قدرے راحت ملتی لیکن مودی حکومت کو عوام سے زیادہ اپنے خزانے بھرنے کی فکر لاحق ہے ۔