عہدیدار‘ بھی حکومت کی زبان بولنے لگے

   

مجھ سے ممکن تو نہیں ، آپ ہی تنہا کرلیں
شوق سے ترکِ محبت کا ارادہ کرلیں
عہدیدار‘ بھی حکومت کی زبان بولنے لگے
جس وقت 2014 سے مرکز میں نریندرمودی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس وقت سے اس ملک میں مسلمانوں کیلئے سازشوں کا دور شروع ہوچکا ہے ۔ حکومت کی ایماء پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا عمل پوری شدت کے ساتھ جاری ہے ۔حکومت کے نمائندے اور ذمہ داروں کی جانب سے مسلمانوں کو یہ مشورے دئے جاتے رہے ہیں کہ مسلمان اس ملک سے چلے جائیں اور پاکستان میں جا کر بس جائیں۔ مرکزی وزراء نے تک بھی کہا تھا جن مسلمانوں کو اس ملک کے رسم و رواج پر عمل کرنے میں عار ہے وہ پاکستان چلے جائیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال تھی جب خود مرکزی وزراء کی جانب سے اور حکومت کے ذمہ دار نمائندوں کی جانب سے اس طرح کے بیانات دئے جا رہے تھے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اثر کو اب اعلی عہدیدار بھی قبول کر رہے ہیں اور وہ حکومت کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ ایک تازہ ترین ویڈیو منظر عام پر آیا ہے جس میں میرٹھ ( اترپردیش ) کے ایس پی کو یہ کہتے ہوئے سناجارہا ہے کہ جو لوگ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں انہیں پاکستان چلے جانا چاہئے ۔ یہ ویڈیو ایسا ہے جس سے حکومت اور اعلی حکام و عہدیداروں کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ اسی طرح اس ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ میرٹھ کے اڈیشنل ضلع مجسٹریٹ بھی احتجاجیوں کے تعلق سے ایسی زبان بول رہے ہیں جو انہیں ہرگز ذیب نہیںدیتی ۔ وہ یہ کہتے ہوئے دیکھے اور سنے جاسکتے ہیں کہ احتجاجیوں کا مستقبل بگاڑنے میں انہیں چند سکنڈ نہیں لگیں گے ۔ چند سکنڈ میں وہ نہ صرف ان کے احتجاج کو ختم کردیں گے بلکہ ان کی ساری زندگی کو تاریک کردیا جائیگا ۔ یہ کوئی معمولی عہدیدار یا کلرک وغیرہ نہیں ہیں جو اپنے کام کے بوجھ سے انتہائی بیزارگی کے انداز میں اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے ہے بلکہ یہ انتظامیہ کے ذمہ دار عہدیدار ہیں جن کا ایک بھی عمل اورا یک بھی اقدام بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا لوگوں کی زندگی پر اثر ہوسکتا ہے ۔ اگر اتنی اہم حیثیتوں پر فائز عہدیدار بھی اس طرح کی زبان بولنے لگتے ہیں اور ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کے تعلق سے ان کا یہ طرز عمل ہوتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے ۔
ایک اور حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میرٹھ کے آئی جی کا کہنا ہے کہ یہ عہدیدار جب احتجاج کے مقام پر پہونچے تو وہاں کچھ نوجوان پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ۔ ان نعروں کے جواب میں عہدیداروں کا جو رد عمل تھا وہ فطری بات ہے ۔ یہ رد عمل بھی انتہائی نامناسب ہی ہے ۔ پہلے تو یہ واضح نہیں ہے کہ احتجاج کے دوران نوجوانوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔ اگر یہ نعرے لگائے جاتے تو ایک ہفتے کے بعد یہ بات کیوں سامنے لائی جا رہی ہے ۔ اب تک ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اس کا کہیں کوئی تذکرہ کیوں سامنے نہیں آیا ہے ؟۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نوجوانوں نے ایسے نعرے لگائے ہیں تو پولیس کے ذمہ دار ان کے خلاف سخت ترین دفعات کے تحت مقدمات درج کرتے ہوئے عدالتوں میں ثبوت و شواہد پیش کریںاور وہاں سے انہیںغداری کی سزائیں دلائیں۔ ایسا کیا جاتا ہے تو سارا ملک ان کی تائید کریگا ۔ مسلمان بھی تائید کرینگے کیونکہ مسلمان ‘ پاکستان کے حامی نہیں بلکہ ہندوستان کے وفادار ہیں۔ جو عہدیدار قانون پر عمل کروانے کے ذمہ دار ہیں وہی اگر قانون کے خلاف کام کرتے ہیں تو ان سے جواب کون طلب کریگا ؟ ۔ کوئی خلاف قانون کام اگر واقعی ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے یا پھر کوئی اور خلاف قانون کام کرتے ہوئے اس کا جواب دیا جاسکتا ہے ؟ ۔ اس معاملہ میں عذر گناہ بد تر از گناہ کہا جاسکتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ سارے ملک میں سی اے اے اور این آر سی و این پی آر کے خلاف عوام کا زبردست احتجاج چل رہا ہے ۔ مودی حکومت کو شائد پہلی مرتبہ ملک میں عوام کی اس قدر شدید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور حکومت کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس سے نمٹا کیسے جائے ۔ خاص طور پر اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت میں لا قانونیت عام ہوگئی ہے ۔ پولیس عہدیدار ہی قانون کے خلاف عمل کر رہے ہیں اور حکومت ان سے جواب طلب کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور انہیں شاباشی دی جا رہی ہے ۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس سے عہدیداروں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ اپنی تاناشاہی چلا رہے ہیں۔ اس سے دستور کی دھجیاں اڑ رہی ہیں اور حکومت کو اس کا نوٹ لینا چاہئے ۔
اپوزیشن پر حکومت کی برہمی
سارے ملک میں پھیلے ہوئے مخالف سی اے اے اور این آر سی احتجاج سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگی ہے ۔ حکومت کو عوامی احتجاج اور غیض و غضب کا شائد پہلی مرتبہ تجربہ ہو رہا ہے اور وہ اس پر برہم ہوگئی ہے ۔ حکومت چونکہ عوام پر راست برہمی کا اظہار کرنے کے موقف میں نہیں ہے اس لئے وہ اس کیلئے اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر کانگریس کی جانب سے حکومت کے جھوٹ اور اس کی غلط بیانیوں کو واضح کیا جا رہا ہے ۔ امیت شاہ اور نریندر مودی کے بیانات میں تضاد کو عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔ اسی وجہ سے بی جے پی اور مرکزی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگے ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر کی جانب سے سب سے بڑا جھوٹا قرار دیا گیا ہے ۔ جاوڈیکر نے یہ وضاحت نہیں کی کہ امیت شاہ اور مودی میں این آر سی اور حراستی کیمپس کے تعلق سے کون جھوٹ بول رہا ہے ۔ یہ جھوٹ راست ملک کے عوام سے بولا جا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے ایوان میں اس تعلق سے بیان دینے کے بعد اس سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ اس پر بی جے پی کے قائدین کوئی جواب دینے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی جو زر خرید گودی میڈیا ہے وہ اس تعلق سے کوئی بحث کرنے تیار ہے ۔ وہ تو صرف حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے میں جٹا ہوا ہے اور اپنی ذہنی غلامی کی مثالیں پیش کرنے میں مصروف ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا پھر وزیر داخلہ امیت شاہ ہوں انہیںجھوٹ اور دروغ گوئی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ملک کے عوام کے جو احساسات ہیں ان کا خیال کرنا چاہئے اور انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ ذاتی اناء کی تکمیل کیلئے جھوٹ کا سہارا لے کر اپوزیشن کو نشانہ بنانا در اصل کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہوگا ۔