مولانا سید جلال الدین عمری
رمضان کا بابرکت مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کی خوشی خبری کے ساتھ آتا ہے۔ دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے، ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری شب بیداری، ہماری تلاوت، ہماری زکوۃ اور صدقات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ رمضان المبارک یہ سبق دیتا ہے کہ تقویٰ و عبادت کی جو زندگی ہم نے گزاری ہے، اس پر آئندہ بھی قائم رہیں، بلکہ اس راستہ پر اور تیز گامزن ہو جائیں۔
عید الفطر میں مسلمان جوق در جوق عیدگاہوں اور مساجد کا رخ کرتے ہیں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک میں اپنی عبادت اور نیکی کی جو توفیق دی ہے، اس کا شکر بجالاتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں سے مغفرت کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ اس امت کے اتحاد اور اجتماعیت کی بھی علامت ہے۔ یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ چھوٹے بڑے، امیر و غریب، عالم و جاہل کے فرق و امتیاز کو فراموش کرکے ایک صف میں کھڑے ہوکر اور ایک امام کی قیادت میں عبادت کا فرض انجام دیا جائے۔ ان کا یہ اتحاد اور صف بندی نیکی اور تقویٰ اور اللہ کی عبادت و اطاعت کے لئے ہوتی ہے، اس کے پیچھے کوئی دوسرا مقصد نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے عام اجتماعی معاملات میں اسی اتحاد کا ثبوت دینا چاہئے۔ اس سے اس امت کے ایک ہونے کا تصور ابھرے گا اور ہمارے بہت سے مسائل حل ہونے کی راہیں بھی کھلیں گی۔
ہمارا ملک تعلیمی، معاشی اور صنعتی لحاظ سے جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اس سے ایک طرف تو خوشی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ دیکھ کر افسوس اور صدمہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسی رفتار سے اخلاق و کردار کے زوال میں مبتلاء ہے۔ یہ ملک مختلف طبقات اور گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہمارے لیڈر اور رہنما اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کے لئے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام نوع انسانی کو خدا پرستی اور وحدت بنی آدم کا درس دیتا ہے۔ اس کا اظہار اس کی عبادات اور عید کے مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خود مسلمان اس کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں اور ان میں بہت سی دوسری کمزوریاں بھی راہ پا گئی ہیں، لیکن ہماری اہل ملک سے اور اس کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ مسلمانوں کی ان کمزوریوں کو نظرانداز کرکے اسلام کے فکر و فلسفہ، اس کے تصور مساوات، اس کے نظام عبادات اور انسانوں کے ساتھ اس کی ہمدردی کی تعلیم پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ ہمارے ملک کو کس طرح صحیح رخ دے سکتا ہے۔ میڈیا کو بھی چاہئے کہ اسلام کے ان پہلوؤں کو نمایاں کرے۔ اسلام سب کے لئے ہے اور سب ہی اس کے محتاج ہیں۔
عید الفطر کے اس پرمسرت موقع پر ہندوستان کے مسلمان فلسطین، عراق، افغانستان اور دنیا کے مختلف گوشوں میں ظلم و جبر اور ابتلاء و آزمائش کا شکار اپنے بھائیوں کو فراموش نہیں کرسکتے۔ کچھ بڑی طاقتوں کی ہوس اقتدار اور اسلام دشمنی نے دنیا کے کروڑوں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم دنیا کے ان مظلوموں کو حوصلے کا مظاہرہ کرنے، اللہ کی ذات پر یقین کامل رکھنے اور اپنی آزادی و خود مختاری کے لئے جہد مسلسل کا پیغام دیتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ رب العالمین ان کی دست گیری کرے اور آزمائشوں سے نکال کر پرمسرت زندگی عطا فرمائے۔
آخر میں اس امت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اس کی حیثیت خیر امت اور داعی گروہ کی ہے۔ حالات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں، اس کو اپنی اس حیثیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور بہترین منصوبہ بندی اور حکمت کے ساتھ اسلام اور اس کی حیات بخش تعلیمات کو ایک متبادل نظام فکر و عمل کی حیثیت سے ملک کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری سے کوئی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ اسی ذمہ داری کی ادائیگی میں ملت کی بھی نجات ہے اور طرح طرح کی مشکلات اور مسائل میں گرفتار سے محبت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ اسلام نے پہلے بھی قوموں کو مشکلات سے آزادی دلائی ہے اور آج بھی وہ اپنے اندر یہ عظیم قوت رکھتا ہے۔