عیسائی نابالغ لڑکی سے زبردستی شادی‘ لاہور کی عدالت نے اس کو درست قراردیا

,

   

لاہور۔پاکستان میں عیسائیوں کے لئے ہر روز کا خوف ایک عام بات بن گیاہے۔ ملک کی دوفیصد عیسائی اقلیت کو ہر روز مسلم اکثریت کے تشدد او رامتیازی سلوک کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پاکستان میں عیسائی لڑکیوں کو خوفناک پریشانیوں اور حقائق کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان میں سے کچھ کے ساتھ زبردستی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کا واقعات پیش آتے ہیں۔ مریا شہباز کی زندگی کا یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔

اسی سال اپریل میں بندوق کی نوک پر ایک 14سالہ عیسائی لڑکی مریا کو اغوا کرلیاگیاتھا۔ اس کو اغوا کرنے والے اور ایک بااثر مسلم شخص سے اس کی زبردستی شادی کرادی گئی تھی۔ تین ماہ تک مذکورہ 14سالہ لڑکی اغوا کار کے قیدمیں رہی تھی۔

اس کے گھر والوں کو پاکستان کی انصاف پسند عدلیہ سے ہی انصاف کی امید تھی۔

منگل کے روز مذکورہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ مریا شہباز نے اپنی مرضی سے مذہب اسلام اختیار کیاہے اور اپنے اغوا کار سے شادی کی ہے۔

لہذا فیصلے میں کہاگیاکہ وہ اپنے اغوا کار کی تحویل میں رہے اور اچھی بیوی بن جائے۔ مذکورہ عدالت نے لڑکی کو نابالغ ثابت کرنے والے اسکول ریکارڈس اور پیدائش کے صداقت نامہ کو بھی خاطر میں نہیں لایاہے۔

ایک عینی شاہد نے کہاکہ یہ فیصلہ سنائے جاتے وقت لڑکی کے آنکھ نم تھے اپنے دماغ کی بات کرنے سے وہ خوفزدہ تھی اور اپنی فیملی کی حفاظت کا ڈر اس کے پیش نظر تھا۔

پاکستان کی یہ پہلی اقلیتی عورت نہیں ہے جو اس طرح کے حالات کا سامنا کررہی ہے اور آخری بھی نہیں ہوسکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے 1000غریب عورتیں اور لڑکیاں ہر سال اغوا کرلئے جاتے ہیں‘ زبردستی اسلام قبول کرایاجاتا ہے اور ان کے اغوا کا ر ان سے جبراً شادیاں کرلیتے ہیں

پاکستان کی ترجیحات مختلف ہیں اور اس میں شدت پسندی دیگر معاملات شامل ہیں اور کسی بھی اس کے تبدیل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔