بے جرم جان لینا کچھ بھی نہ منہ سے کہنا
تو ہی بتا ستم گر کیا یہ ستم نہیں ہے
!غدار کون ہے
غداری کا الزام جب لگایا جاتا ہے تو اس کے پسِ پردہ حقائق اور سرکاری نظم و نسق کی کارکردگی پر توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل انگریزوں کے خلاف آواز اُٹھانے اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے والوں پر غداری کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی یہی قانون ہندوستانی شہریوں کاتعاقب کررہا ہے۔ دہلی پولیس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلباء یونین کے سابق صدر کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف 2016 میں درج کئے گئے غداری کے مقدمہ میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اس چارج شیٹ میں کنہیا کمار کے علاوہ دیگر کئی افراد پر غداری کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ واقعہ 3سال پرانا ہے ۔ یونیورسٹی کے طلباء کا ایک گروپ پارلیمنٹ پر حملہ کیس میں مجرم قرار دیئے گئے سزا یافتہ افضل گرو کو پھانسی دینے کے خلاف احتجاج کررہا تھا۔ 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ کیس میں جب ہندوستان کی اعلیٰ عدالت نے افضل گرو کو خاطی قرار دے کر پھانسی کی سزا دی اور اس پر عمل کیا گیا تو چند طلباء نے اس فیصلہ کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اس گروپ میں پولیس نے جن دیگر طلباء کے نام شامل کئے ہیں ان میں جے این یو کے ہی سابق لیڈر عمر خالد اور ائیرین بھٹ چاریہ ، شہلا رشید کا نام بھی شامل ہے۔ 9 فبروری 2016 کی شب جے این یو میںکیا ہوا یہ سب جانتے ہیں مگر دہشت گردی کا لیبل لگائے گئے اور پارلیمنٹ پر حملے کیلئے خاطی قرار دیئے گئے افضل گرو کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے اس ملک کے حکمرانوں کو چراغ پا کردیا جو دہشت گردی اور کشمیر کے مسئلہ کو لیکر ہی اپنی سیاسی دکان چلا رہے ہیں۔ جب کوئی شہری ناحق ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو وہ اپنی سرزمین کے خلاف غداری نہییں کرتا بلکہ اس نظم و نسق کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے جس کی پالیسیوں سے عوام کی آزادی اور اس کا سُکھ چین چھین لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن حکمراں طبقہ کو اپنے خلاف آواز سُننا اور اُنگلیاں اُٹھتی دیکھنا پسند نہیں ہوتا تو وہ ان احتجاجیوں کو غدار قرار دے کر اپنا انتقام سرزمین مملکت کے خلاف غداری کے الزام کی شکل میں لیتا ہے، اور یہ ماقبل آزادی سے بھی ہوتا آرہا ہے۔ انگریزوں نے یہ پالیسی اختیار کرلی تھی۔ اب اس پالیسی پر موجودہ حکمراں طاقتیں عمل پیراں ہیں۔ ہندوستان کا موجودہ نظم و نسق اپنے ہی شہریوں کو غدار قرار دیتا ہے تو یوں سمجھ لیجئے کہ اس ملک پر کوئی ایسی طاقت حکومت کررہی ہے جو انگریزوں کے تلوے چاٹ کر قوی ہوتی ہے۔ غداری کا قانون‘ انہی انگریزوں نے 1870 میں تھامس میکولے کے تحت برطانوی راج میں نافذ کیا تھا۔ اس قانون کی رو سے کسی بھی اس شخص کو غدار قرار دیا جائے گا جو اپنی زبان اور اپنے قلم سے یا اپنی مہم کے ذریعہ آواز اٹھاتا ہے، حکومت کے خلاف عوام کو اُکسانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس قانون کا ماضی میں کم استعمال ہوتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں جو حکومت آئی ہے غداری قانون کو تیزی سے بلکہ پورے استقدامی اثر کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس نے یوگا گرو کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ایک فیس بُک پوسٹ کو لائیک کرنے والوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا تھا۔ کرکٹ ٹیم کی جیت پر جشن منانے والوں کے خلاف، کارٹون بنانے والوں، یونیورسٹی کے امتحان میں اشتعال انگیز سوال پوچھنے والوں اور سینما ہال میں قومی ترانہ بجنے پر کھڑے نہ ہونے پر بھی غدار قرار دیا جانے لگا۔ انگریزوں کے اس قانون کو ہندوستان کی آزادی کے 70 سال بعد بھی تیزی سے استعمال کیا جارہا ہے تو یہ بدبختی کی بات ہے جس کی شدید مذمت کی جانی چاہیئے۔ جے این یو کا طلباء گروپ موجودہ حکومت کی نظر میں اس لئے غدار قرار پایا ہے کیونکہ اس گروپ نے مرکز کی موجودہ حکمراں طاقت کی پالیسیوں اور کارکردگی پر سوال اُٹھاکر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ، ان کی حکومت اور حکمراں پارٹی بی جے پی اقتدار پر آنے کے بعد اپنے خلاف کوئی لفظ سُننا پسند نہیں کررہی ہے۔ 3 سال پرانے واقعہ کو تازہ کرتے ہوئے اس حکومت نے طلباء گروپ کو غداری کے چارج شیٹ کے ساتھ عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے تو اُمید کی جاتی ہے کہ اس ملک کا عدلیہ ہندوستانیوں کے ساتھ انصاف کرے گا اور اس ملک کا کون غدار ہے یہ آشکار ہونا چاہیئے۔